وضاحت‘ کس طرح ایک وقف کی تشکیل عمل میں آتی ہے اور اس طرح کے جائیدادوں کی نگرانی کے لئے مذکورہ قانون

,

   

کسی بھی تصفیہ کے حل کے لئے‘ مذکورہ سنی وقف بورڈ وقف بورٹ کو کیس کا ایک اہم فریق ہے‘ کیونکہ وقف املاک کا انتظامیہ قانونی طور پر طئے شدہ ہے۔

نئی دہلی۔چونکہ چہارشنبہ کے روز ایودھیا معاملہ میں بحث مکمل ہوگئی ہے‘ مذکورہ سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ ثالثی پینل نے فریقین کے مابین ایک ”اتفاق رائے سے تصفیہ“کی پیشکش پر مشتمل تازہ ایک رپورٹ داخل کی ہے۔

کسی بھی تصفیہ کے حل کے لئے‘ مذکورہ سنی وقف بورڈ وقف بورٹ کو کیس کا ایک اہم فریق ہے‘ کیونکہ وقف املاک کا انتظامیہ قانونی طور پر طئے شدہ ہے۔

وقف کیا ہے؟

وقف کا مطلب مذہب اور خیرات کے مقصد سے اللہ کے نام پر دینا ہے۔ قانونی شرائط میں مستقبل‘ قانونی شرائط میں مذہب اسلام کی پیروی کرنے والے ایک شخص کی جانب سے مستقل لگن برائے کسی منقولہ او رغیر منقولہ جائیدادجس کو مسلم قانون کی طرف سے کسی بھی مقصد سے بطور متقی‘ مذہبی اور خیراتی۔

کسی ڈیڈ کے ذریعہ وقف کو تشکیل دیاجاسکتا ہے‘ یا پھر جائیداد کو وقف کا حصہ بنایاجاسکتا ہے اگر وہ مذہب یا پھر خیراتی مقصد سے طویل مدت کے لئے۔

اس عمل کا استعمال تعلیمی‘ ادارہ جاتی‘ قبرستانوں‘ مساجد اور یتیم خانون کی معاشی مدد کے لئے ہوتا ہے۔

ایک مرتبہ کسی فرد کی جانب سے وقف کرنے کے بعد مذکورہ جائیداد اور وقف ہمیشہ کے لئے وقف ہوجاتا ہے۔

ایک غیرمسلم بھی وقف کرسکتا ہے مگر اس کی نگرانی کرنے والا مسلمان ہونا چاہئے‘ اور جس مقصد سے وقف کیاجارہاہے وہ اسلام کا حصہ ہونا چاہئے۔

کس طرح وقف کی حکمرانی ہوگی؟۔

ہندوستان میں 1995کو وقف ایکٹ بنایاگیا ہے‘ مقامی سطح پر جانچ کے بعد ایک سروے کمشنر نے مذکورہ ایکٹ کے تحت تمام جائیدادوں کو وقف قراردیا ہے‘

اس کے لئے عینی شاہدین کو طلب کیاگیا‘ عوامی دستاویزات کے لئے بھی درخواست دی گئی ہے۔ وقف کی دیکھ بھال متولی کرتے ہیں‘ جو نگران کارکے طورپر کام کرتا ہے۔

یہ ٹھیک اسی طرح ہے جیسا ہندوستان ٹرسٹ ایکٹ 1882ہے مگر ٹرسٹوں کا قیام وسیع پیمانے پر مذہبی یا خیراتی مقصد سے استعمال نہیں ہوتا۔ ایک قائم کردہ ٹرسٹ کو بورڈ جیسے وقف تحلیل کرسکتا ہے

وقف بورڈ کیاہے؟

ایک وقف بورڈ کا فقہہ موقف ہے جس کو اراضی حاصل کرنے یااس طرح کی جائیداد کو کسی کو منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ بورڈ مقدمہ دائر کرسکتا یا عدالتوں میں مقدمہ بھی پیش کرسکتا ہے کیونکہ اس کو قانونی وارث اور فقہہ فرد تسلیم کیاگیاہے

ہر ریاست میں ایک وقف بورڈ ہے جس کے ایک چیر پرسن ہے اسکے علاوہ حکومت کی جانب سے ایک یادو نمائندے بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ مسلم قانون ساز اور پارلیمنٹرین بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں او ربورڈمیں اسٹیم بار کونسل کے مسلم اراکین کو بھی شامل کیاجاتا ہے‘

ان سب کے علاوہ اسلامی تعلیمات سے واقف اسکالرس اور متوالی برائے وقف جن کی آمدنی سالانکہ ایک لاکھ یا اس سے زیادہ کی ہو انہیں بھی بورڈ میں لیاجاتا ہے

ایودھیاتنازعہ اور یوپی سنی وقف بورڈ کے درمیان کیا تعلقات ہیں؟

وقف بورڈ ایکٹ کے مھابق اترپردیش سنی وقف بورٹ کو سائیڈ کی نگرانی کا اختیار تھا۔ سال 1945میں فیض جج کے سامنے سنی وقف بورڈ او رشیعہ وقف بورڈ کے درمیان پیش آنے والی کشیدگی میں یہ فیصلہ سنایا گیا تھا کہ بابری مسجد سنی وقف بورڈ کے دائرکار میں ہے۔

مذکورہ سنی سنٹرل وقف بورڈ اترپردیش 1989میں مدعی بن گیاتھا

کیاوقف بورڈ کسی بھی متنازعہ معاملے میں اپنا دعوی سے دستبرداری اختیار کرسکتا ہے؟

چونکہ وقف بورڈ کے چیر پرسن کی جانب سے وقف کوئی یکطرفہ‘ ذاتی طور پر دعوی نہیں کرسکتا‘ کیونکہ ان قانونی حیثیت سے نہیں ہے اور وہ مسلم سماج کا پابند ہے۔

وقف بورڈس کی لازمی منظوری کے بغیر وقف جائیداد کی خرید وفروخت ایک جرم مانا جاتا ہے اور اس طرح کے تنازعات کو حل کرنے کے ئے وقف ایکٹ میں ایک قانون ہے اور اس کے لئے خصوصی عدالتیں بھی قائم کی گئی ہیں۔

ایودھیامعاملہ میں سات دعویدار ہیں چھ انفرادی کے طور پرجبکہ ایک سنی وقف بورڈ بھی ہے‘ جس نے مسلم کمیونٹی کے نمائندوں کے طور پر مقدمہ دائر کیاہے۔

اب جبکہ بحث اختیام پذیر ہوگئی ہے اور فیصلہ محفوظ کردیاگیا ہے‘ یہ ہوسکتا ہے مقدمہ سے دستبرداری میں سنی وقف بورڈ کے لئے کافی دیر ہوگئی ہے۔

یہا ں تک کہ اگر سنی وقف بورڈ دستبرداری اختیار کرنا بھی چاہتا ہے تو بورڈ کی دو تہائی حصہ کی حمایت اس کو حاصل ہونا چاہئے