وعدے تو بہت دیکھے ہیں سرکار کے ہم نے

,

   

خواتین تحفظات … کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
کنیڈا سے کشیدگی … طلبہ کا مستقبل داؤ پر

رشیدالدین
’’ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں خواتین تحفظات بل منظور ہوگیا لیکن پھر بھی خواتین کو قانون ساز اداروں میں 33 فیصد حصہ داری کیلئے انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ انتظار چند دن، ہفتے یا مہینوں کا نہیں بلکہ کئی برسوں تک خواتین کو اپنے حق کی اُمید اور آس میں گذارنے ہوں گے۔ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا کہ مصداق مودی حکومت نے جب خواتین تحفظات بل کی پیشکشی کا اعلان کیا تو سیاسی میدان کی کھلاڑی اور اس میں قدم رکھنے کی خواہشمند خواتین کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ جس انداز میں مودی حکومت نے بل کی پیشکشی کا فیصلہ کیا اُمید کی جارہی تھی کہ 5 ریاستوں کے اسمبلی چناؤ اور آئندہ چند ماہ بعد لوک سبھا چناؤ میں خواتین کو 33 فیصد نشستیں حاصل ہوں گی۔ مرد حضرات کے غلبہ والے اس سماج میں خواتین کو ہمیشہ کمزور سمجھا گیا۔ ریزرویشن سے اقتدار میں مساوی حصہ داری کی اُمید جاگی تھی لیکن لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بل کی منظوری کے باوجود خواتین کیلئے جشن کی گنجائش نہیں رہی۔ خوشی کے بجائے مایوسی ہاتھ لگی، ایسے بل کی منظوری سے تو نہ ہونا بہتر تھا۔ عام طور پر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قانون سازی فوری اثر کے ساتھ نفاذ کیلئے کی جاتی ہے لیکن گذشتہ 27 برسوں سے پُرامید خواتین کو پارلیمنٹ اور مرکزی حکومت نے مایوس کردیا۔ تحفظات پر عمل آوری کو تقریباً 10 برس لگ جائیں گے اور اس کے بعد بھی کوئی گیارنٹی نہیں کہ قانون پر عمل ہوگا۔ اس وقت تک کون دنیا میں رہے گا اور مرکز میں حکومت کس کی ہوگی کہا نہیں جاسکتا۔ مودی حکومت نے ووٹ بینک کی سیاست کی تو اپوزیشن نے بھی اُسی انداز میں جواب دیا اور بلا چوں و چرا بل کی تائید کردی۔ سابق میں جو پارٹیاں خواتین تحفظات کے خلاف تھیں انہوں نے بھی تائید کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عمل آوری کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ’’ ہے شکاری داؤ پر تو داؤ پر اپنے شکار‘‘ کی طرح حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اپنا اپنا کھیل کھیلا اور خواتین کو بے وقوف بنادیا گیا۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ خواتین سے ہمدردی کے نام پر سیاست کی گئی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے سنجیدگی کے بجائے زبانی ہمدردی سے کام لیا۔ نریندر مودی کو خواتین کو بااختیار بنانے یعنی ویمن ایمپورمنٹ سے کافی دلچسپی ہے۔ جس شخص نے گھر والی کو جائز مقام نہیں دیا اور در در کی ٹھوکر کھانے کیلئے چھوڑ دیا وہ خواتین کی ضرورت اور اُن کے جذبات کیا جانے۔ ملک میں ویمن امپاورمنٹ کی ابتداء گھر سے ہونی چاہیئے۔ امپاورمنٹ تو چھوڑیئے مودی گھروالی کو گھروالی ماننے تک تیار نہیں۔ تحفظات بل کے نفاذ کیلئے ملک میں نئی مردم شماری اور حلقہ جات کی ازسرِ نو حد بندی کا بہانہ بنایا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 2029 تک عمل کرنا نہیں تھا تو پھر خصوصی سیشن بلا کر بل منظور کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دراصل مودی اور بی جے پی کے پاس 5 ریاستوں اور پھر لوک سبھا چناؤ کا سامنا کرنے کیلئے ایشوز نہیں ہیں لہذا تحفظات کے نام پر خواتین کے ووٹ بینک کو بی جے پی کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ مودی حکومت نے عمل آوری کے بغیر قانون سازی کے ذریعہ تائید کے بجائے خواتین کی ناراضگی مول لی ہے۔ گذشتہ 9 برسوں میں مودی حکومت کا گراف جس تیزی سے گرا ہے اُس کا ثبوت کرناٹک اور ہماچل پردیش میں کانگریس کی کامیابی ہے۔ اسمبلی کے ضمنی چناؤ میں بھی کئی ریاستوں میں اپوزیشن کو غلبہ حاصل رہا۔ بی جے پی کے پاس 2024 انتخابات کیلئے ایجنڈہ نہیں ہے۔ رام مندر اب انتخابی موضوع نہیں بن سکتا، اس کے لئے ایک اور بابری مسجد تلاش کرنا ہوگا۔ فرقہ وارانہ اور نفرت کے ایجنڈہ سے عوام بیزار ہوچکے ہیں۔ تحفظات بل منظور کرتے ہوئے بی جے پی خواتین کے سہارے تیسری مرتبہ اقتدار کا خواب دیکھ رہی تھی لیکن یہ حکمت عملی بھی ناکام ہوگئی۔ پارلیمنٹ میں بی جے پی کو اکثریت ہے اور تمام اپوزیشن پارٹیاں بھی تائید کررہی ہیں۔ ایسے میں فوری اثر کے ساتھ تحفظات پر عمل آوری کا فیصلہ کیا جاسکتا تھا لیکن اس کے لئے سنجیدگی اور عزم کی ضرورت ہے۔ صرف وعدہ کرتے ہوئے خواتین کی تائید حاصل کرنے میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ اپوزیشن کی جانب سے او بی سی اور مسلم خواتین کو تحفظات کا مطالبہ کیا گیا اور یہ مطالبہ بھی 33 فیصد کے بل کی طرح ہے۔ اپوزیشن کی نظریں دراصل او بی سی اور مسلم خواتین کے ووٹ پر ہیں۔ عمل ہو یا نہ ہو مطالبہ کرنے میں کونسا خرچ آتا ہے۔ جہاں تک مسلم خواتین کو تحفظات کا سوال ہے مجالس مقامی کے اداروں میں تحفظات کے نتائج ہر کسی کے سامنے ہیں۔ اسلام نے عورت کو گھر کی زینت قرار دیا ہے نہ کہ بازار میں نمود و نمائش کی شئے۔ مسلم خواتین کو اسمبلی و پارلیمنٹ میں تحفظات سے بہتر تعلیم اور ملازمتوں میں تحفظات کی ضرورت ہے۔ بہتر تعلیم اور ملازمت کے ذریعہ خواتین اپنے خاندان کی بہتر کفالت کرپائیں گی۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے جنہیں خیر اُمت کا لقب دیا آج وہی خود کو پسماندہ کی فہرست میں شامل کرانے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔ اخلاقی اِنحطاط کے اس دور میں مسلم لڑکیوں اور خواتین کیلئے دین اور شریعت کی تعلیم ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو تباہی سے روکا جاسکے۔ اصلاحِ معاشرہ کا نعرہ لگانے والوں کو خواتین میں اس مہم کو انجام دینا چاہیئے تاکہ خواتین ہوم میکر کے ساتھ ساتھ ایک خاندان کی بہتر تربیت کا ذریعہ بن سکیں۔ مسلمانوں کو اپنی قابلیت و صلاحیت سے ترقی کا عادی بنایا جائے تاکہ وہ کسی کی مہربانی اور رحم و کرم کے منتظر نہ رہیں۔
پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس ختم ہوگیا اور ملک میں لوک سبھا اور اسمبلیوں کے بیک وقت انتخابات کی قیاس آرائیاں بھی ختم ہوگئیں۔ حکومت کی جانب سے بیک وقت انتخابات کے اشارے دیئے جارہے تھے لیکن لوک سبھا کے خصوصی اجلاس کے انعقاد کا مقصد محض خواتین تحفظات بل کو پیش کرنا اور پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں داخل ہونا تھا۔ آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس کیوں طلب کیا گیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اتحاد INDIA کے خوف سے یہ اجلاس طلب کیا گیا تاکہ وزیر اعظم کو دونوں ایوانوں میں تین مرتبہ اظہار خیال کا موقع ملے۔ نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے دونوں ایوانوں کو انتخابی مہم کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔ کارروائی پر برسراقتدار پارٹی کے غلبہ کے باوجود سونیا گاندھی اور راہول گاندھی نے حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے راجیہ سبھا میں خوب گرجے، انہوں نے خواتین ریزرویشن پر حکومت کی سنجیدگی پر سوال اُٹھائے۔ خصوصی اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ دستور کی جو کاپیاں نئی پارلیمنٹ میں رکھی گئی ہیں اُس کی تمہید سے سیکولر اور سوشلسٹ الفاظ کو ہٹادیا گیا ہے۔ یہ دراصل دستور میں تبدیلی کی شروعات ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دستور سازی کے وقت تمہید میں سیکولر اور سوشلسٹ الفاظ موجود نہیں تھے بلکہ 1976 میں ترمیم کے ذریعہ انہیں شامل کیا گیا تھا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کو ہمیشہ ان دونوں الفاظ سے تکلیف رہی ہے اور انہوں نے آخر کار ہندو راشٹر کے نظریہ کو آگے بڑھانے کیلئے سیکولر اور سوشلسٹ کے الفاظ حذف کردیئے۔ ایک طرف پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا تو دوسری طرف ہندوستان کے کنیڈا کے ساتھ سفارتی تعلقات کشیدہ ہورہے تھے۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ دونوں ممالک نے سفارتی عہدیداروں کو واپس بھیج دیا اور ہندوستان نے کنیڈین شہریوں کے ویزے جاری کرنا غیر معینہ مدت کیلئے معطل کردیا ہے۔ کنیڈا میں 18 جون کو خالصتان کے حامی ہردیپ سنگھ نجر کی ہلاکت کے بعد یہ تنازعہ شروع ہوا تھا۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ ہندوستانی ایجنٹس نے ہردیپ سنگھ کا قتل کیا ہے۔ جسٹن ٹروڈو کے اس بیان سے سفارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے اور پہلے ہی دن دونوں ممالک نے سفارتی عہدیداروں کو واپس جانے کی ہدایت دی۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ کنیڈا میں مقیم ہندوستانی اور خاص طور پر ہزاروں طلبہ خود کو غیر محفوظ تصور کررہے
ہیں۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کہیئے کہ چین کے بعد کنیڈا سے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔اگر کنیڈا میں خالصتان کے حامی مخالف ہندوستان سرگرمیوں میں ملوث ہیں تو سفارتی سطح پر جسٹن حکومت پر کارروائی کیلئے دباؤ بنایا جاسکتا تھا۔ ایک طرف چین تو دوسری طرف امریکہ سے سرد جنگ جاری ہے ایسے میں کنیڈا سے سفارتی سطح پر کشیدگی ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ کنیڈا میں مقیم ہندوستانی شہریوں کو واپس جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہندوستان جارحانہ موقف کے بجائے سفارتی سطح پرتنازعہ کا حل تلاش کرتا۔ویمنس ریزرویشن پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
وعدے تو بہت دیکھے ہیں سرکار کے ہم نے
سانچے میں عمل کے انہیں ڈھلتے نہیں دیکھا