وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹادے گا

   

کشمیر:قائدین رہا … 370 تنسیخ کا تجربہ ناکام
گولی نہیں میٹھی بولی کا وعدہ بھول گئے

رشیدالدین
ہر اچھے کام کو بگاڑنا کوئی نریندر مودی حکومت سے سیکھیں۔ سماج میں ہر دور میں ایسے افراد کی کمی نہیں رہی جو تخریب کاری کے ماہر ہوں۔ ہر اچھی چیز ہر اچھے کام کو نشانہ بناتے ہوئے حالات خراب کرنا اور اس سے لطف اندوز ہونا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ جمہوریت میں حکومت عوام کی ، عوام کیلئے اور عوام کی جانب سے بنائی ہوئی ہوتی ہے لیکن جب حکومت عوام کے مفادات کے خلاف کام کرنے لگے تو اس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ محض اتفاق ہے یا پھر منظم منصوبہ بندی کہ گزشتہ 6 برسوں میں نریندر مودی حکومت نے تعمیر کم اور تخریب کے کام زیادہ انجام دیئے ہیں۔ ملک کے جس شعبہ کو بہتر پایا ، اس کی حالت بگاڑدی۔ ہر اچھے کام حتیٰ کہ عوام کی خوشحالی بھی مودی حکومت کو شائد پسند نہیں۔ ملک کی معیشت سے لے کر زراعت ، صنعت اور روزگار کے شعبہ جات میں غلط فیصلوں کے ذریعہ عوام کو مشکلات سے دوچار کردیا۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ہو یا پھر ملک کی روایتی مذہبی رواداری ان دونوں محاذوں پر غلط فیصلوں کے ذریعہ ہندوستان کی جگ ہنسائی کا سامان کیا۔ ملک کی اچھی خاصی معیشت کو نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے ذریعہ زوال سے دوچار کردیا گیا۔ اس طرح مثالوں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن ہم کشمیر کی صورتحال پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ کشمیر جسے جنت ارضی کہا جاتا ہے، وہاں کے عوام کی خوشحالی برداشت نہیں ہوئی ۔ لہذا دفعہ 370 اور 35A کی برخواستگی کے ذریعہ جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ ختم کردیا گیا۔ ریاست کو دو مرکزی زیر انتطام علاقوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ جس ریاست کے بارے میں فیصلہ کیا گیا، وہاں کے عوام عوامی قیادت سے مشاورت تک نہیں کی گئی بلکہ ان پر مرکز کا فیصلہ مسلط کردیا گیا۔ سزائے موت کے ملزم سے بھی اس کی آخری خواہش پوچھی جاتی ہے لیکن کشمیری عوام کو دستوری حقوق سے محروم کرنے سے قبل ان کی رائے تک حاصل کرنا گوارا نہیں ہوا۔ پارلیمنٹ میں اکثریت اور کمزور اپوزیشن کا فائدہ اٹھاکر ڈکٹیٹرشپ کی طرح یکطرفہ فیصلے تو کئے جاسکتے ہیں لیکن ان فیصلوں سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ ملک کا آج بھی یہی حال ہے۔ کسی بھی محاذ پر حکومت کامیاب نہیں ہے اور اس سطح پر عوام مسائل کا شکار ہیں۔ داخلی محاذ ہو کہ خارجی امور دونوں میں ملک سنگین حالات سے گزر رہا ہے ۔ ایک طرف غربت، بیروزگاری اور بیماری سے عوام پریشان ہیں تو دوسری طرف ملک کی سرحدیں محفوظ نہیں۔ جموں و کشمیر جہاں عوام امن اور ترقی کا خواب دیکھ رہے تھے ، ان کا خواب چکنا چور کرتے ہوئے جنت ارضی کو جہنم میں تبدیل کردیا گیا۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست گزشتہ 70 برسوں سے فرقہ پرست اور تعصب پسند طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی، آخر کار نریندر مودی نے دیرینہ ایجنڈہ کی تکمیل کرتے ہوئے کشمیر کے خصوصی موقف اور ریاست کی حیثیت کو ختم کردیا۔ مرکزی حکومت کے فیصلہ کو ایک سال مکمل ہوگیا لیکن آج تک کشمیر کے حالات کو بہتر بنایا نہیں جاسکا۔ جس فیصلہ کے ذریعہ بی جے پی کشمیریوں کے حوصلوں کو پست کرنا چاہتی تھی، اُس فیصلہ نے ہندوستانی حکمرانوں پر کشمیری عوام کے اعتماد کو متزلزل کردیا ہے۔

عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے وابستہ رہنے اور اس وقت کے قائدین کے وعدوں پر بھروسہ کرنا آیا غلطی تو نہیں تھی ؟ کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں کو ایک سال سے زائد عرصہ تک محروس رکھا گیا۔ اس امید کے ساتھ کہ عوام مرکز کے فیصلہ کو تسلیم کرلیں گے لیکن جن کی زندگی نظریات اور اصولوں پر ہوتی ہے، ان کے عزائم اور حوصلوں کو جیل کی کوٹھری اور نظربندی پست نہیں کرسکتے۔ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی کے علاوہ کشمیری جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین اور جہد کاروں کو احتجاج کے خوف سے جیلوں میں بند کردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ مودی حکومت اچھی طرح جانتی تھی کہ عوام فیصلہ کو قبول نہیں کریں گے ۔ جانتے بوجھتے لیکن ہندوتوا ایجنڈہ کی تکمیل کا جنون سر پر سوار تھا ، لہذا فوج اور سیکوریٹی فورسس کے ذریعہ کشمیر میں حالات بحال کرنے کی کوشش کی گئی ۔ حالات جب سدھرنے کے بجائے دن بہ دن ابتر ہونے لگیں تو سیاسی قائدین کی رہائی عمل میں آئی ۔ پہلے نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ ، اس کے بعد پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کو رہا کیا گیا۔ یہ دونوں پارٹیاں مرکز اور ریاست میں بی جے پی کی حلیف رہ چکی ہیں لیکن ایجنڈہ کے معاملہ میں حلیفوں پر بھی بھروسہ نہیں کیا گیا ۔ آج تک یہ واضح نہ ہوسکا کہ مذکورہ قائدین گرفتار کیوں کئے گئے تھے اور پھر انہیں رہا کیوں کردیا گیا ۔ کیا وادی میں حالات معمول پر آچکے ہیں۔ کیا عوام نے 370 کی تنسیخ کو قبول کرلیا ہے ؟ کوئی بھی حقیقی کشمیری اس فیصلہ کو قبول نہیں کرسکتا کیونکہ ہندوستان سے وابستہ رہنے کے لئے خصوصی مراعات فراہم کی گئی تھیں۔ مراعات کا خاتمہ مجاہدین آزادی اور دستور سازوں کی توہین ہے جنہوں نے شریفانہ معاہدہ کے تحت کشمیریوں کو خصوصی موقف عطا کیا تھا ۔ کشمیر عوام کا موقف جاننا ہو تو فوج اور سیکوریٹی فورسس کو ہٹاکر دیکھیں۔ بزرگوں کا قول ہے کہ کفر سے حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں۔ کشمیر کی سیاسی قیادت نے واضح کردیا کہ 370 کی بحالی تک حالات قابو میں نہیں آسکتے ۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ 370 کی برخواستگی اور ریاست کی تقسیم سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ محض یہ تسکین ہے کہ بھلے ہی فائدہ نہ ہو لیکن ایجنڈہ کی تکمیل تو ہوگئی ۔ جب کسی پارٹی کو ملک کے مفاد سے زیادہ ایجنڈہ کی تکمیل کا جنون ہو تو صورتحال سدھرنے کے بجائے مزید بگڑ جاتی ہے ۔ لداخ میں چین کی دراندازی کو 370 کی برخواستگی سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔ کشمیری قیادت یہ کہنے پر مجبور ہوچکی ہے کہ 370 کو چین بحال کرے گا۔ سرحد پر چین کی جارحیت میں دن بہ دن شدت پیدا ہورہی ہے اور ایک وسیع و عریض علاقہ سے محرومی کے باوجود ہندوستان چین کے خلاف کارروائی سے قاصر ہے۔ گجرات میں مودی کے ساتھ جھولا جھولنے اور چینائی میں ساحل سمندر کی سیر کے باوجود چینی صدر نے ہندوستانی علاقہ پر قبضہ اور ہندوستانی سپاہیوں کو ہلاک کرتے ہوئے دوستی کا بدلہ چکایا ہے ۔ یہ مودی حکومت کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے کہ کشمیری اپنے حقوق کی بحالی کیلئے چین کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دستورِ ہند نے عوام کو اظہار خیال اور معافی الضمیر ادا کرنے کی اجازت دی ہے اور یہی ہندوستان کی خاص خوبی ہے جسے دنیا بھر میں منفرد مقام پر پہنچادیا ہے۔

کشمیر کے جن دونوں سیاسی گھرانوں کو محروس رکھا گیا ، یہ دونوں قوم پرستی کی عظیم مثال ہے، دونوں خاندانوں نے کشمیر کی تعمیر نو اور صورتحال میں بہتری کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ 370 کی برخواستگی کے بعد سے عوام کو اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے ۔ وادی میں جمہوریت آخر کب بحال ہوگی ۔ کشمیر ایجنڈہ سے بی جے پی کی مایوسی اور ناکامی کا اندازہ کشمیر امور کے انچارج کی حیثیت سے رام مادھو کی معزولی ہے۔ آر ایس ایس بیاک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے رام مادھو کا شمار کشمیری امور کے ماہرین میں ہوتا تھا۔ 370 کی برخواستگی میں رام مادھو کی تجاویز کا اہم رول تھا اور انہوں نے کشمیر میں رہ کر حالات کو سازگار بنانے کی کوشش کی تھی۔ ایک سال کے بعد بھی جب بی جے پی کو کوئی فائدہ نظر نہیں آیا تو رام مادھو کو کشمیر امور کے انچارج کے عہدہ سے معزول کردیا گیا۔ ایسے وقت جبکہ کشمیر میں مذاکرات کے ذریعہ صورتحال بہتر بنانے کی ضرورت ہے ، رام مادھو کو ہٹانا دراصل بی جے پی کی کشمیر پالیسی کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ ایک سال گزرنے کے باوجود کشمیری عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں بی جے پی ناکام رہی ۔ حالانکہ نریندر مودی اور امیت شاہ نے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی میں پھوٹ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مخالف بی جے پی طاقتوں کو کمزور کیا تھا ۔اٹل بہاری واجپائی نے کشمیریت ، انسانیت اور جمہوریت کا نعرہ لگایا تھا جس کے جواب میں مودی نے گولی سے نہیں بلکہ میٹھی بولی سے کشمیری عوام کا دل جیتنے کی بات کہی لیکن دونوں دعوے غلط ثابت ہوئے۔ مودی حکومت کشمیری عوام کے ساتھ میٹھی بولی کے بجائے صرف گولی کے ذریعہ صورتحال پر قابو پانا چاہتی ہے جوکہ 370 کی بحالی تک ممکن نہیں ہے۔ قول اور فعل میں تضاد مودی حکومت کو مہنگا پڑے گا۔ والی آسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹادے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے