وه سحر جس سے لرزتا هے شبستانِ وجود

,

   

   اس وقت(جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس دنیا سے پردہ فرما جاتی ہے، اور اسلام کی وہ جمع پونجی اور راس المال جو اس کا اصل سرمایہ تھا، یعنی عرب اور قبائل عرب ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے، اسلام جو عرب کے گوشہ گوشہ میں پھیل گیا تھا سمٹ کر صرف مدینہ، مکہ اور طائف میں محصور ہوگیا تھا) کے مقابلے میں آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہے، اس وقت مسلمان صرف مدینہ، مکہ اور طائف میں رہ گئے تھے، لیکن آج دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں اسلام کے نام لیوا موجود نہ ہوں۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد ہزاروں سے زیادہ تھی، لیکن آج وہ اسی(80) کروڑ سے بھی متجاوز ہیں۔ اس وقت تین شہروں کو چھوڑ کر اور کہیں مسلمانوں کو حاکمانہ اقتدار حاصل نہ تھا لیکن آج ان کی بیسیوں حکومتیں موجود ہیں اور لاکھوں مربع میل زمین ان کے زیر اقتدار ہے، اس وقت مشکل سے ایسے مسلمان موجود تھے جنہیں اطمینان کے ساتھ دونوں وقت کھانا میسر تھا لیکن آج شاید ہی کوئی ایسا ہو جو بھوکوں مر رہا ہوں، اس وقت ہزاروں کی دولت رکھنے والے مسلمان بھی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے لیکن آج کروڑوں کی مالیت رکھنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں سے متجاوز ہے، آج نہ یاس کا موقع ہے اور نہ ہراس کا۔ ضرورت صرف اس کی ہے کہ اللہ کے بندے بن جائیں، اپنے آپ کو ایمان و یقین اور عمل صالح سے آراستہ کریں، اگر ہم نے ایسا کر لیا تو تمام خطرات اور شبہات یقین کی حرارت اور عمل کی قوت کے سامنے اس طرح ناپید ہو جائیں گے جس طرح صبح کا کہر اور رات کی شبنم سورج کی گرمی کے سامنے ناپید ہو جاتی ہے۔

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ (سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ