ویڈیوزمیں۔ شان رسالتؐ میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر پولیس کی بربریت

,

   

ملک کے مختلف حصوں میں شان رسالتؐ میں گستاخانہ کلمات ادا کرنے والے بی جے پی قائدین کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر پولیس کی بربریت کے سوشیل میڈیاپر کئی ایک ویڈیوز منظرعام پر ارہے ہیں۔

فساد برپا کرنے کا جس پر الزام لگایاجارہا ہے ان پر پولیس کی لاٹھیاں برس رہی ہیں اس کے علاوہ مظاہرین پر گولیا ں بھی چلائی گئی ہیں۔

مظاہرین کو ”قابو میں کرنے“ کے نام پر رانچی میں پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر کھلی فائرینگ کی جس میں دو مسلم نوجوانوں کی موت او رمتعدد زخمی ہوئے ہیں۔ حالات بے قابو ہیں بالخصوص اترپردیش او رجھارکھنڈ میں جہاں سے ٹوئٹر پر پولیس بربریت کے کئی ایسے ویڈیو منظرعام پرآرہے ہیں جس میں پولیس مسلمانوں بشمول معصوم بچوں کے ساتھ بربریت کررہی ہے۔


یہاں پر کچھ ایسے ویڈیو پیش کئے جارہے ہیں
اترپردیش میں مسلمان جن پر ”فسادکرنے“ کرنے کاالزام ہے پولیس کے ہاتھوں بے رحمی کے ساتھ ان کی پیٹائی کی جارہی ہے۔

مذکورہ ویڈیو دوارکا سے بی جے پی رکن اسمبلی ڈاکٹر شالابھ منی ترپاٹھی نے پوسٹ کیاہے۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ ”باغیوں کے لئے جوابی تحفہ“

یہ ویڈیو جھارکھنڈ کے رانچی سے ہے جس میں ایک سفید کرتا پہنا ہوا خوف زدہ نابالغ لڑکا پولیس اور مظاہرین کے درمیان میں پھنسا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔

ظاہر ہورہا ہے کہ وہ خوفزدہ ہے او رمدد کے لئے پولیس جوان کے پاس مدد کے لئے پہنچا جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔

ابتدال میں تو مذکورپ لویس والاایسا لگ رہا ہے کہ ”اس نابالغ کی حالات کو سمجھ گیاہے“ مگر پھر جب وہ اپنے ساتھیوں کے پاس اس کو لے جاتا ہے تو وہ فوری اس لڑکے کی پیٹائی کردیتے ہیں۔ یہ خوفزدہ لڑکا بھاگتا ہوا دیکھائی دیتا ہے جو معجزاتی طور پر سامنے سے ہونے والے پتھراؤکی زد میں آنے سے بچ گیا

اگلے ویڈیومیں دیکھا یاگیا ہے کہ ایک پولیس والا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مظاہرین پر فائرینگ کرتاہوا دیکھائی دے رہا ہے۔

ایک شخص دوسرے پولیس اہلکار کو اس بات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ”مارو‘ مارو‘ مارو“ اور”ماریے نے سر“ جس کے بعد مظاہرین کے ساتھ کی جانے والی گالی گلوج بھی صاف سنائی دیتی ہے

ایک او رویڈیو اترپردیش کے پریاگ راج کا ٹوئٹر پر گشت کررہے جس میں مسلم شخص کو بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے‘ جو یوپی پولیس کی مارپیٹ سے بچ کر بھاگنے کی کوشش کررہا ہے۔ مذکورہ پولیس جبراً اس شخص کو گھسیٹ کر پولیس گاڑی کی طرف لے جاتے ہوئے بھی دیکھی جاسکتے ہیں۔

مغربی بنگال‘ جھارکھنڈ اور جموں کشمیر میں میں ریاستی حکومت او رضلع انتظامیہ نے مزید24گھنٹو ں کے لئے انٹرنٹ خدمات کو مسدود کردیاہے۔ حالانکہ پولیس نے کہنا ہے کہ”حالات مکمل قابو“ میں ہے‘ یہاں بدامنی کا خدشہ ہے۔


پولیس کا اقلیتی خلاف بربریت او راحتجاج کی وجوہات
بی جے پی کے دو برطرف ترجمان نوپور شرما او رنوین کمار جندال کے شان رسالتؐ میں گستاخانہ کلمات کی ادائیگی کے خلاف مسلمان نماز جمعہ کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں اکٹھا ہوئے او رزبردست احتجاجی مظاہرہ کیاہے۔

ابتداء میں تو شرما او رجندال کے خلاف مرکز کی زیراقتدار بی جے پی نے کوئی کاروائی نہیں کی تھی مگر عرب او رمسلم اکثریت والے ممالک کی جانب سے حکومت ہند کی مذمت اور ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد معاملے نے طول پکڑلیا۔

نقصان کی بھرپائی کے طور پر حکومت ہندو نے مذکورہ دونوں قائدین کی برطرفی کا اعلان کیا اور ایسے ”شر پسند عناصر“ سے خود کو دورکھنے پر مشتمل ایک بیان جاری کیا۔

تاہم عالمی مذمت کے ساتھ ہندوستان میں مقامی لوگوں نے رائے دی کے محض برطرفی کافی نہیں ہے دو نوں کو گرفتا ر کریں او رسخت سزاء سنائیں۔

ملک کے مختلف حصوں میں جمعہ کی نماز کے بعد10جون کے روز ایک احتجاج کا اعلان کیاگیا‘ کئی ریاستیں بشمول مغربی بنگال‘ جھارکھنڈ‘ اترپردیش‘ جموں اور کشمیر اوردیلی میں مسلمانوں نے زبردست احتجاج درج کرایا جو پولیس کے ساتھ مبینہ جھڑپوں کے بعد پرتشدد ہوگیا۔