وی ڈی ساورکر اور آر ایس ایس کیسے جیتے

,

   

ان کے ہندوتوا کے جدید ورژن نے معاشراتی قدامت کو شکست دی ہے
یہ حکومت ہندوؤں کے حقوق کے صدیوں طویل تحریک اور اس کے نظریات برائے ”دعویداری اور تعمیرنو“ ہندوستانی نوآبادیاتی ریاست کا پراڈکٹ ہے۔

ہندوستانی سیاست میں دائیں بازو کی سرگرمی غیر واضح رہی ہے۔ وہیں اس عمل صدیوں سے زیر راستہ ہے‘ اس کا واضح انکشاف صرف2014کے الیکشن کے بعد سے ہی نظر آرہا ہے‘ یہ کہنا مبالغہ آرائی کی بات نہیں ہے کہ پہلے مرتبہ ایک مضبوط ہندو مبنی حکومت دہلی پر حکومت کررہی ہے۔

یہ حکومت ہندوؤں کے حقوق کے صدیوں طویل تحریک اور اس کے نظریات برائے ”دعویداری اور تعمیرنو“ ہندوستانی نوآبادیاتی ریاست کا پراڈکٹ ہے

۔سادہ لودہ مفروضات کے برعکس مذکورہ ہندو رائٹ واحدمتحد تحریک نہیں بلکہ مختلف علاقائی تغیرات کے ساتھ مختلف خطوط کا یکجہ ہونا ہے۔

ان میں سے تین حصہ اپنے بڑے رائے دہندوں کی بنیاد پر ایک ساتھ کھڑے دیکھائی دیں گے۔ مذکورہ پہلا وی ڈی ساورکر کی شدت پسند ہندوتوا کی رتنا گیری لائن ہے‘

جو ایک جدید صنعتی ہندو قوم کا تصور پیش کرتا ہے طبقہ واری نظام کو ختم کرنے کی وکالت بھی کرتا ہے‘ اس کے علاوہ مسلسل سماجی تبدیلی بھی اس کا حصہ ہے۔

ہندوتوا خود ہی ہندو خیالات میں مخالف ذات پات‘ اصلاحات‘ جدیدیت اور مستقبل پر مشتمل ایک شدت پسندی کی توڑ تھی۔ دوسرا راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کا قدامت پسندانہ نقطہ نظر‘ جو اصولی طور پر ہندوتوا کے نام پر کی جانے والی سماجی تبدیلی کی وکالت کرتا ہے‘ مگر اس میں خلل ڈالنے کی طرف بھی راغب کیاجاتا ہے۔

اس کی حمایت سماجی مساوات‘ بیواؤ ں کی شادی‘ بین مذہبی شادیاں‘ ایل جی بی ٹی کیو حقوق ہیں مگر ماننا یہ ہے کہ سماج کو مجبور کرنے کے لئے اس موقع فراہم کیاجانا چاہئے۔

تیسرا بہاؤ سماجی قدمت پسندی ہے‘ جس میں پرانے ذات پات کے نظم او رقدیم جاگیردانہ نظام کے تسلسل کوتسلیم کیاجاتا ہے۔

اس طریقے سے بڑے پیمانے پر رام راجیہ پریشد کو فراموش کردیا۔ میں یہ بھی بحث کروں گے کے یہ ایم کے گاندھی کے سماجی او رمعاشی نظریات کے برعکس ہے‘

جنھوں نے بڑے پیمانے پر جدید اور صنعتی نظام کی مخالفت کی تھی اور کم سے کم ابتدائی سالوں میں وہ اپنے ذات پات کے نظام کی اندراج شدہ درجہ بندی سے کافی مطمئن بھی تھے