ٹوئٹر نے مودی حکومت کی پول کھول دی

   

روش کمار
اب حکومت ہند ڈرانے دھمکانے میں بھی نام کمارہی ہے ، مدر آف ڈیموکریسی کے فادر آف پاور کا کارنامہ سامنے آرہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ واٹس ایپ انکل لوگ خوشی سے ہاوزنگ سوسائٹی کے باب الداخلہ پر لوٹ گئے ہوں گے کہ بھارت کا بڑا نام ہوگیا ۔ بھارت نے ٹیوئٹر کو دھمکا دیا ہیکہ وہ اب یہ بات سمجھنے کے لائق ہی نہیں بچے ہیں کہ ڈرانے دھمکانے کے معاملہ جب بھی پکڑے جاتے ہیں جب صحافیوں کے اکاونٹ بند کرنے کیلئے دھمکاتے ہوئے حکومت پکڑی جاتی ہے تب نام نہیں ہوتا ہے بدنامی ہوتی ہے ڈوب مرنے کی بدنامی ان انکلوں کی عقل کی ڈی جی پی اتنی تیز رفتار سے آگے بڑھ کر تھک چکی ہے کہ ٹیوئٹر کو دھمکانے کی خبر سن کر یہ خوش ہورہی ہے کہ بھارت سپرپاور بن گیا ہے ۔ ٹوئیٹر بنانے والے دو لوگ تھے ان میں سے ایک ہیں جیاک ڈورسی وہ حال تک ٹیوئٹر کے سی ای او بھی رہے ہیں ان کا ایک بیان آتا ہے کہ بھارت کی حکومت صحافیوں کے ٹوئیٹر اکاونٹ بند کروانے کیلئے دھمکی دے رہی تھی ، دھاووں کا ڈر دکھا رہی تھی ان سے جن صاحب نے ٹوئیٹر خریدا ہے یعنی ایلون ماسک جن کو آپ راکٹ چھوڑتے ہوئے اور سٹیلا چلاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ آپ کا لاڈلا بھی ماسک بن جائے گا ۔ ان کو بھی بھارت سرکار سے ڈر لگتا ہے کہ جیل نہ بھیج دے اب اس طرح کے عالمی الزام سے دنیا بھر کے لوگوں خاص کر سرمایہ کاروں میں کیا پیغام جائے گا ؟ کیا اچھا پیغام جارہا ہوگا ؟ ٹوئیٹر کے سابق سی ای او نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بھارت ہے ؟ یہ کیا ایک جمہوری ملک ہے ؟ ٹوئیٹر کے سابق سی ای او جیاک ڈورسی نے بریکنگ پوائنٹ نامی ایک چیانل کو ایک انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے کسان تحریک کے موقع پر کافی دباؤ ڈالا سوال پوچھنے والے کئی صحافیوں کے اکاونٹس بند کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا یہاں تک کہا گیا تھا کہ بھارت میں ٹیوئٹر بند کردیں گے جو ( بھارت ) ان کیلئے کافی بڑا بازار ہے ۔ اگر آپ ہماری بات نہیں مانیں گے تو آپ کے عہدہ داروں کے گھروں پر چھاپے پڑیں گے جو کہ انہوں نے کیا آپ کے دفاتر بند کردیں گے۔ جیاک ڈورسی نے حیران ہوتے ہوئے دریافت کیا کہ آیا یہ بھارت ہے ؟ آیا یہ ایک جمہوری ملک ہے جس بھارت کی جمہوریت پر دنیا کو ناز تھا آج اس بھارت کی جمہوریت پر اس طرح کے سوال اُٹھنے لگے ہیں ۔ مدر آف ڈیموکریسی کے فادر آف پاور کو یہ سمجھنا چاہئے کہ مٹھی میں بند کر لینے سے اقتدار مٹی کی طرح چپک نہیں جاتا ہے بلکہ ریت کی طرح پھسل جاتا ہے ۔ صحافت سے لیکر صحافیوں کو اتنا ڈرانے دھمکانے اور بھارت کی صحافت کو گوبر اور گودی میڈیا میں تبدیل کرنے پر کیا ملا ؟
دنیا کے سامنے پول کھلنے لگی ہے ، جیاک ڈورسی بھی حیرانی جتارہے ہیں کہ کیا یہ بھارت ہے اور ایک جمہوری ملک ہے ؟ حکومت نے ڈورسی کے بیان کی فوری مذمت کی کیونکہ یہ خبر آپ کے جاگنے سے پہلے دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی ۔ آپ ذرہ بتائے کہ ہمارے ملک میں صحافیوں کو خبر لکھنے سے روکا جاتاہے ڈرایا جاتاہے ، مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے نوکریوں سے نکلوایا جاتا ہے کیا یہ سچ حکومت کی جانب سے کی گئی ٹوئیٹر کی مذمت سے تبدیل ہوجائے گا ۔ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ میڈیا میں 2014 کے بعد سے کیا ہوا ہے ؟ جب ٹوئیٹر کو دھمکی مل رہی ہے کہ کسی صحافی کا اکاونٹ بند کردو ورنہ بھارت میں جو دفتر ہے بند کروادیں گے ، عہدہ داروں کے مکانات پر دھاوے کروادیں گے تو سوچئے کہ سوال کرنے والے تو دوچار ہی صحافی ہیں اتنے بڑے ملک میں یہ دوچار صحافی اپنا کام کتنی مشکل سے کرتے ہوں گے ۔ اس لئے جیاک ڈورسی کے بیان پر حکومت کا مذمتی بیان پڑھ کر آپ کیا کریں گے ؟ کیا آپ کو پتہ نہیں ہے کہ چند روز پہلے امیتھی کے ایک غریب صحافی کے ساتھ مودی کابینہ کی وزیر سمرتی ایرانی نے کیا کیا ؟ اس کی نوکری برخواست کروادی ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوال پوچھنے پر کیا ایک وزیر ،صحافی کی نوکری برخواست کروائیں گی ، اسے بیروزگار کردیں گی تو آپ کہیں گے کہ بھارت میں بھارت کا نام ہوگیا ۔ ممکن ہے بہت سے لوگوں نے سمرتی ایرانی کا وائرل ویڈیو نہ دیکھا ہو جس میں وہ دوھان سبھا کی تو ہین کے نام پر ایک صحافی کو دھکارہی تھی کہ وہ اس کے اخبار یا چیانل کے مالک سے بات کریں گی ، ودھان سبھا کی توہین ایک نئی توہین والا ایک نیا آیٹم لانچ کردیا اور وزیر موصوفہ نے کہا کہ اگر آپ میرے حلقہ کی توہین کریں گے تو میں آپ کے مالکان کو فون کر کے کہوں گی کہ آئندہ میرے حلقہ کی عوام کی توہین مت کریں بہت پیار سے درخواست کررہی ہوں ! چند گھنٹوں میں ہی دینک بھاسکر کا سمرتی ایرانی کو ٹیاگ کرتے ہوئے ٹوئیٹ آگیا کہ کیمرہ مین بپن یادو ان کے یہاں کام ہی نہیں کرتا ہے ۔ سمرتی ایرانی نے بھی ٹوئیٹ کردیا کہ رپورٹر ہی فرضی نکلا اور یہی نہیں نیوز لانڈری نے بپن یادو کی کئی رپورٹس کالنک بھی اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بپن یادو دینک بھاسکر کیلئے کام کررہے تھے بپن یادو کا روزگار چھین لیا گیا جبکہ انہوں نے ایسا کوئی قابل اعتراض سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ سمرتی ایرانی سے یہی کہا تھا کہ بائٹ دیدیجئے لیکن اس کے گھر کا چولہا بجھادیا گیا ، ہٹ دھرمی اور اناپرستی غرور و تکبر کے اس بدترین مظاہرہ کے بعد بھی کسی انکل نے ہاوزنگ سوسائٹی کے واٹس ایپ پر نہیں لکھا ہوگا کہ یہ غلط ہوا ہے کیونکہ یہ انکل لوگ مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں اور مذہب پر کی جانے والی سیاست کچھ اور نہیں ہوتی بلکہ دھرم کی فیکٹری ہوتی ہے جہاں ہر طرح کا ’’ ادھرم ‘‘ دھرم بتایا جاتا ہے ۔ 28 جنوری 2021 کے ٹائمس آف انڈیا کی ایک خبر پر نظر دوڑائے دراصل مذمت کرنے والے وزیر کو پتہ ہیکہ کوئی صحافتی نمائندہ اتنی محنت ہی نہیں کرے گا ان کے مذمتی بیان کو من و عن شائع کردے گا اس دور میںحکومت کے مذمت بیانات خوش نصیبی سے بھی کہیں زیادہ خوش نصیب ہوچکے ہیں ۔ کچھ بیچارے تو اپنے سرمنڈواکر پھر رہے ہیں کہ کوئی کچھ بولے تو لکھ دیں ۔ 28 جنوری 2021 کی اس خبر میں کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ ٹوئیٹر نے ہی کہا تھا کہ 26 جنوری کو کسان تحریک کے مارچ کے دوران جو تشدد پھوٹ پڑا اس کے اگلے دن 300اکاونٹس کو معطل کردیا گیا ۔ ٹوئٹر نے ایک وجہ بتائی کہ پلیٹ فارم کا ناجائز استعمال ہوا اور Spam Policy کی خلاف کا ارتکاب کیا گیا ، اسی وقت ٹوئٹر نے کسان ایکتا مورچہ کے آئی ٹی سیل کے ٹریکٹر 2 ٹوئٹر ہینڈل چلانے والے محمد آصف خاں ، نہراج مینا ، سی پی ایم قائد محمد سلیم ، سی پی ایم پڈوچیری اور عام آدمی پارٹی کی لیڈر پریتی شرمامنین کے ساتھ ساتھ آئی ٹی پروفیشنل بھاوجت سنگھ اور کارواں انڈیا میگزین کے ٹوئیٹر ہینڈل کو معطل کردیا تھا ۔ جب ٹوئیٹر کی کارروائی کی مذمت ہونے لگی تو اگلے دن کاروان میگزین اور کسان یکتا مورچہ کے ٹوئٹر ہینڈل بحال کردیئے گئے تب عوام جان گئی تھی کہ انہیں کس کے کہنے پر اور کس لئے معطل کیا گیا ہوگا ۔ اس خبر کو آپ ٹوئٹر کے سابق سی ای او جیاک ڈورسی کے بیان سے ملا لیجئے جواب مل جائے گا ۔ جیاک ڈورسی نے کہا ہیکہ بھارتی حکومت کی طرف سے دباو ڈالا جارہا تھا کہ کسان تحریک کے دوران کچھ ٹوئٹر اکاونٹس معطل کردیئے جائیں ورنہ ٹوئٹر کے عہدہ داروں کے گھروں پر دھاوے ہوں گے اور بھارت میں ان کا دفتر بند کردیا جائے گا ۔ 2021 کے ہی ماہ فبروری میں نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ جیاک ڈورسی کے بیانات کی تصدیق کرتی ہے کہ بھارتی حکومت نے مانگ کی تھی کہ کسان تحریک کے دوران حکومت کے برتاؤ کو لیکر مذمت کرنے والے اکاونٹس بند کردیئے جائیں ٹوئٹر نے ایسا نہیں کیا لیکن جب بھارت میں کام کرنے والے عہدہ داروں کو جیل میں ڈالنے کی دھمکی دی گئی ہے ٹوئٹر نے بھارتی حکومت کا حکم مان لیا ۔ حکومت نے کہا کہ جن اکاونٹس سے نریندر مودی کے بارے میں اشتعال انگیز باتیں لکھی گئیں ہیں انہیں بند کرنا پڑے گا یہاں تک کہ ٹوئٹر کو جو نوٹس دی گئی اس کے تحت حکم نہ ماننے پر عہدہ داروں کے سر پر سات سال جیل کا خطرہ منڈلانے لگا اس لئے ٹوئٹر نے 500ا کاونٹ بند کردیئے اور دوسرے Hide کر دیئے ۔