ٹوٹ رہی ہے مجھ میں ہر دن اک مسجد

,

   

ایک اور 6 ڈسمبر … ایک اور بابری مسجد
گیان واپی مسجد میں پوجا … دہلی میں تاریخی مسجد شہید

رشیدالدین
’’ایک اور 6 ڈسمبر ۔ ایک اور بابری مسجد‘‘ وارانسی کی گیان واپی مسجد کے بارے میں ضلع عدالت کا فیصلہ سنتے ہی بے ساختہ یہ الفاظ زبان پر آگئے۔ ضلع عدالت کے جج اے کے وشویش کے فیصلہ نے بابری مسجد اور سپریم کورٹ کی یاد تازہ کردی ہے ۔ تاریخی گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں پوجا کی اجازت محض ایک عام فیصلہ نہیں بلکہ ایک اور 6 ڈسمبر کی تیاری کا اعلان ہے۔ ملک میں عدلیہ کی غیر جانبداری اور بالادستی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ مذہبی مقامات کے بارے میں عدالتوں میں فیصلے اب قانون ، ثبوت اور گواہوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ آستھا کی بنیاد پر ہوں گے ۔ بابری مسجد کے بعد کاشی اور متھرا ہی نہیں بلکہ سنگھ پریوار کے نشانہ پر موجود 3000 مساجد کا وہی حشر ہوگا جو بابری مسجد کا ہوا۔ ہندوستان کو آزادی دلانے والے مجاہدین آزادی نے دستور اور قانون کی بالادستی ، جمہوریت اور سیکولرازم کے اصولوں پر حکمرانی کا خواب دیکھا تھا۔ گزشتہ 10 برسوں کے حالات کا جائزہ لیں تو آج کی آزادی سے انگریزوں کی غلامی بہتر دکھائی دے گی۔ نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت کے 10 برسوں کے دوران جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ۔ اسلام اور مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا اور عبادت گاہوں کو چھیننے کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ ایک ہنگامۂ محشر ہو تو اس کو بھولوں، سینکڑوں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے۔ مسلمان ایک غم سے ابھرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اچانک ایک تازہ زخم استقبال کرتا ہے۔ مودی دور حکومت میں شائد ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس دن مسلمانوں نے چین اور سکون کی سانس لی ہو۔ ہر صبح کوئی نہ کوئی نیا زخم ضرور ملتا ہے ۔ کبھی مآب لنچنگ ، لو جہاد ، حجاب ، حلال ، اذان ، بیف اور دیگر عنوانات سے حملے اور تشدد ۔ مساجد ، عیدگاہوں ، مدارس اور درگاہوں پر بلڈوزر کارروائیاں ۔ الغرض مسلمانوں کو بار بار یہ احساس دلانے کی کوشش ہے کہ تم اس ملک کے مالک اور ساجھیدار نہیں بلکہ کرایہ دار اور ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہیں۔ کیا یہ وہی ہندوستان ہے جس کا خواب پرکھوں نے دیکھا تھا ۔ ظلم و استبداد کی انتہا کے باوجود مسلمان حوصلہ شکن ضرور ہوا ہے لیکن اس نے مادر وطن سے وابستگی کو اٹوٹ رکھا ہے۔ مسلمانوں کی دیش بھکتی اور حب الوطنی پر سوال اٹھانے والے اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتے کہ ملک سے غداری ، دشمن ممالک کو جاسوسی اور دفاعی راز فروخت کرنے کے معاملہ میں ’’بھارت ماتا‘‘ کا نعرہ لگانے والے زیادہ پائے گئے ہیں۔ ظلم کے پہاڑ توڑنے کے باوجود مسلم قوم پوری آب و تاب کے ساتھ سر اٹھاکر زندگی بسر کر رہی ہے۔ سنگھ پریوار کو حیرت اس بات پر ہے کہ ’’کیا بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری‘‘۔ ظالم اور مخالفین کو کوئی سمجھائیں کہ جس دین اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ دراصل وہ دین غالب ہونے کیلئے ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اسلام اور مسلمانوں کا صفایا نہیں کرسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’تم ہی غالب رہوگے بشرطیکہ تم مومن بن جاؤ‘‘۔ لاکھ کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود بھی مسلمانوں کے جذبہ ایمانی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ شرط یہ ہے کہ کوئی اس جذبہ کو ہوا دینے والا ہو۔ بقول علامہ اقبال ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی‘‘۔ ہندوستان کے مسلمانوں اور انصاف پسندوں کیلئے یکم فروری کی صبح دو عظیم سانحات سے روبرو کرنے والی تھی۔ دارالعلوم نئی دہلی میں 600 سالہ قدیم مسجد اور دینی مدرسہ کو شہید کردیا گیا اور وارانسی کی گیان واپی مسجد میں پوجا کی اجازت دے دی گئی ۔ ایک طرف ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کو ابھی ایک ہفتہ مکمل ہوا کہ دہلی میں تاریخی مسجد پر بلڈوزر چلادیا گیا ۔ ایسا نہیں ہے کہ مسجد غیر آباد تھی اور مندر توڑ کر تعمیر کرنے کا کوئی دعویٰ بھی نہیں تھا۔ وہ مسجد جہاں پانچ وقت اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھیں اور روزانہ طلبہ قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے، اسے غیر قانونی کہہ کر شہید کردیا گیا ۔ دہلی جہاں کے پایہ تخت سے مسلمانوں نے ملک پر صدیوں حکمرانی کی، اسی دہلی میں مسلمانوں کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ مسجد کی شہادت پر ایک مسلمان بھی گھر سے باہر احتجاج کیلئے نہیں نکلا۔ مسلمانوں کی حالت پرندوں اور کتا ، بلی جیسے جانوروں سے بھی بدتر ہوچکی ہے جو ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ کسی چڑیا یا کبوتر کے گھونسلے کو نقصان پہنچایا جائے تو تمام ایک ساتھ جمع ہوکر آوازوں کے ذریعہ احتجاج کرتے ہیں۔ کسی بند کمرہ میں کتا اور بلی کو نشانہ بنائے تو وہ پلٹ وار کرتے ہیں لیکن مسلمان ، جانوروں اور پرندوں سے بھی گئے گزرے ہوچکے ہیں۔ جوابی ایکشن تو دور کی بات ہے ، احتجاج کیلئے آواز بھی نہیں نکلتی۔ یہی بے حسی دراصل زوال اور رسوائی کا باعث بن رہی ہے۔ کہاں ہے دہلی کے شاہی امام جن کے والد مرحوم نے بابری مسجد کو ہاتھ لگانے پر پارلیمنٹ کو اپنی لاٹھی سے گرادینے کی دھمکی دی تھی ۔ آخر ہماری مذہبی قیادتوں کا خون سفید کیوں ہوچکا ہے۔ ایمانی حرارت کی جگہ خوف اور مصلحت پسندی طاری ہے۔
وارانسی ضلع کورٹ کے جج اے کے وشویش نے سنگھ پریوار اور آر ایس ایس سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے دن گیان واپی مسجد میں پوجا کی اجازت دے دی۔ عدلیہ میں زعفرانی افراد کا غلبہ ملک کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ بابری مسجد کے معاملہ میں اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے سبکدوشی سے عین قبل آستھا کی بنیاد پر مسجد کی اراضی کو مندر کے لئے حوالے کردیا تھا ۔ اگر یہی رجحان جاری رہا تو ملک کی کوئی تاریخی مسجد محفوظ نہیں رہے گی۔ دہلی کی جامع مسجد اور آگرہ کا تاج محل بھی مندر پر تعمیر کرنے کا دعویٰ برقرار ہے۔ اگر کسی عدالت میں زعفرانی جج موجود ہو تو وہ گیان واپی مسجد کی طرح فیصلہ سناسکتا ہے۔ آخر یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا ؟ ہندوستان میں مقننہ ، عاملہ اور عدلیہ کو جمہوریت کے ستون کہا جاتا ہے ۔ عدلیہ پر عوام کو اس لئے بھی بھروسہ ہے کہ ہمیشہ دستور اور قانون کی بالادستی کے لئے عدلیہ نے اپنا رول نبھایا۔ بابری مسجد کے فیصلہ کے بعد سے عوام کا عدلیہ پر بھروسہ کمزور ہونے لگا ہے۔ ثبوت اور گواہوں سے زیادہ ججس کو اکثریتی فرقہ کی آستھا کی فکر ہے۔ رام مندر تحریک کے دوران کاشی اور متھرا کی مساجد پر دعویداری پیش کی گئی تھی۔ 1991 ء میں عبادتگاہوں کے تحفظ کا قانون نافذ کیا گیا جس کے تحت تمام موجودہ تاریخی عبادتگاہوں کو تحفظ حاصل ہے ۔ وارانسی اور متھرا کی مساجد کے خلاف جب عدالتوں میں دعویداری پیش کی گئی تو حکومت کی جانب سے 1991 کے عبادت گاہ قانون کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا ۔ مطلب صاف ہے کہ نریندر مودی حکومت عبادتگاہ قانون 1991 پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ جب کبھی جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں عبادت گاہوں کے خلاف عدالت سے رجوع ہوں گی تو وہاں موجود زعفرانی ذہنیت کے حامل ججس مرکزی حکومت کے اشارہ کا انتظار کریں گے۔ گیان واپی مسجد کے معاملہ میں بابری مسجد کی کہانی دہرائی جارہی ہے ۔ عدالت کی جانب سے سروے اجازت دی جاتی ہے ۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا مرکزی حکومت کے تحت ہے اور سروے رپورٹ میں اس بات کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے کہ مسجد کی دیواروں یا بنیاد پر مندر کے آثار موجود ہیں۔ بھلے ہی سروے رپورٹ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے اشارہ پر تیار کی گئی ہو لیکن عدالت کو پوجا کی اجازت دینے کا موقف مل جاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین ججس کی طرح وارانسی ضلع کورٹ کے جج اے کے وشویش کو اہم عہدہ دیا جائے، جو ان کے فیصلہ پر انعام کی طرح رہے گا۔ گیان واپی مسجد کا معاملہ دراصل عبادت گاہوں کے خلاف سازش کا آغاز ہے۔ متھرا اور دیگر مقامات پر عدالتوں کی مدد سے پوجا کی اجازت حاصل کی جائے گی ۔ عدالتیں جب فیصلے انصاف کے بجائے آستھا کی بنیاد پر دینے لگیں تو پھر انصاف کے لئے عدالتوں سے کون رجوع ہوگا ؟ دوسری طرف نریندر مودی حکومت نے پارلیمنٹ سیشن کے فوری بعد لوک سبھا کو تحلیل کرنے کی تیاری کرلی ہے ۔ بجٹ اجلاس کے فوری بعد لوک سبھا تحلیل کردی جائے گی اور توقع ہے کہ مارچ میں عام انتخابات ہوں گے۔ نریندر مودی کیلئے مذہبی موضوعات کی کمی نہیں ۔ بابری مسجد کے افتتاح سے بی جے پی کو جو فائدہ ہوا ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عدلیہ بھی سنگھ پریوار کے اشارہ پر کام کرنے لگی ہے ۔ گیان واپی مسجد میں پوجا کی اجازت ٹھیک اسی طرح ہے جیسے بابری مسجد میں راتوں رات مورتیاں رکھی گئی تھیں۔ مرکزی وزیر شانتو ٹھاکر نے اندرون ایک ہفتہ ملک میں شہریت ترمیمی قانون CAA پر عمل آوری کا اعلان کیا ہے۔ یہ قانون دراصل پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ہندوستانی شہریت دینے کے لئے تیار کیا گیا۔ یہ قانون ملک میں مسلمانوں کی شہریت کو خطرہ پیدا کرسکتا ہے۔ الیکشن میں تیسری مرتبہ کامیابی کیلئے نریندر مودی کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ راحت اندوری نے اپنا درد کچھ یوں بیان کیا تھا ؎
ٹوٹ رہی ہے مجھ میں ہر دن اک مسجد
اس بستی میں روز ڈسمبر آتا ہے