پاکستانی سیاست میں ابھی’عمران خان ایپی سوڈ‘ ختم نہیں ہوا

   

ظفر آغا
پاکستان ٹھہرا پاکستان! وہاں سیاست کے دو تین بنیادی اصول ہیں۔ اول، ملک زمینداروں کا ہے اور ان کے مسئلہ کا تحفظ نظام کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ دوئم فوج اس بنیادی نظریہ کی نگہبان ہے، اور سوئم اگر ملک میں کوئی سیاستداں یا شخص ان بنیای اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کو اس گناہ کی قیمت چکانی پڑے گی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زمیندارانہ نظام اس اکیسویں صدی مین قصہ ماضی ہے۔ ساری دنیا کی طرح پاکستانی عوام بھی زمیندارانہ نظام سے چھٹکارے کے متمنی ہیں۔ اب نظام یعنی فوج اس تضاد کو حل کیسے کرے۔ عوام کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے ایک کھوکھلے جمہوری نظام کا ڈرامہ کرتا ہے۔ اس کے لیے ملک میں جمہوری طرز پر چناؤ ہوتے ہیں اور ایک صدر یا وزیر اعظم چنا جاتا ہے اور کہنے کو اقتدار اسی کو سونپ دیا جاتا ہے۔ لیکن اس جمہوری ڈھونگ میں فوج اس بات کا پہلے سے ہی خیال رکھتی ہے کہ جو بھی عوامی سیاستداں چن کر برسراقتدار آئے وہ اس بات کا خیال رکھے کہ وہ پاکستانی سیاست کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہرگز نہ کریلیکن جمہوریت کے بھی اپنے چند بنیادی تقاضے ہیں۔ مثلاً جس کو عوام چنتے ہیں وہ اس سے اپنی ترقی کی امید رکھتے ہیں۔ ترقی تب ہی ممکن ہو سکتی ہے جب ماضی کی بنیاد پر چل رہے زمیندارانہ نظام میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کی جائے۔ چنانچہ اکثر عوام کا نمائندہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ نظام کے بنیادی اصولوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ بس یہی وہ لمحہ ہوتا ہے کہ جب پاکستانی زمیندارانہ نظام کی نگہبان فوج اس جمہوری ڈھونگ کو توڑ کر ایسی جرآت کرنے والے عوامی لیڈر کو اس کی اوقات بتا دیتی ہے۔ یعنی اپنی من مانی کی جرآت کرنے والے عوامی لیڈر کو جلد از جلد اقتدار سے نہ صرف باہر کر دیا جاتا ہے بلکہ اگر وہ اقتدار سے باہر جانے کے بعد بھی اپنی ضد پر اڑا رہتا ہے تو نظام اس کو اتنی سخت سزا دیتا ہے کہ آنے والی لمبی مدت کے لیے عوامی لیڈر ایک مثال بن جائے۔
پاکستانی سیاست کی گتھی سلجھانے کو یہ تمہید اس لیے لازمی ہے کہ قاری یہ سمجھ سکے کہ ان دنوں پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے اور اس کا آخری نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ آئیے اب واپس چلیں پاکستان کے عوامی لیڈر عمران خان کی طرف۔ سنہ 2018 میں جب عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے تو پاکستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو یہ خبر تھی کہ خان صاحب ’نظام‘ یعنی فوج کی مرضی سے وزیر اعظم بنے ہیں۔ حقیقت تو یہ تھی کہ فوج نے ہی ان کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ اس وقت فوج نواز شریف سے ناراض تھی کیونکہ وہ ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ پھر میاں نواز شریف خود زمیندار نہیں بلکہ تاجر گھرانے سے تھے۔ وہ یہ خواب دیکھنے لگے کہ اگر ہندوستان سے تعلقات بڑھتے ہیں تو ملک میں ماڈرن کارپوریٹ یعنی تاجر لابی مضبوط ہوگی۔ ظاہر تھا کہ اس تبدیلی سے ملک کی سب سے طاقتور زمیندار لابی کمزور ہوتی۔ میاں صاحب نے اس طرح پاکستانی نظام کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرنے کی جرآت کی۔ بس نگہبان فوج نے جلد ہی نواز شریف کو اقتدار سے باہر کر پہلے جیل بھیجا اور پھر ان کو ملک بدر کیا۔ اب فوج ان کی جگہ عمران خان کو بطور ایک عوامی اور جمہوری نمائندہ برسراقتدار لائی۔
فوج کے کاندھے پر سوار عمران خان پہلے تو سعادت مندی سے فوج کی باتوں پر عمل درآمد کرتے رہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ وہ تو فوج کے اس قدر تابعدار تھے کہ ہر معاملے میں پہلے فوج کی مرضی پتہ کر لیتے تھے۔ لیکن جمہوری نمائندہ بہرکیف جمہوری تو ہوتا ہی ہے۔ غالباً خان صاحب اس خوش فہمی کا شکار ہو گئے کہ وہ عوام میں اس قدر مقبول ہو چکے ہیں کہ وہ فوج کی اَن دیکھی کر سکتے ہیں۔ پہلے تو انھوں نے پاکستانی نظام کی سب سے طاقتور باڈی آئی ایس آئی کے چیف جنرل عاصم منیر کو ان کے عہدے سے ہٹوا کر ان کا تبادلہ کروا دیا۔ پھر ان کے دور کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوا نے جب دوسرے ٹرم کی خواہش ظاہر کی تو خان صاحب کافی عرصے تک جنرل باجوا کی فائل دبا کر بیٹھ گئے۔ بس قیامت آ گئی۔ فوج کو لگا ہماری بلی ہم ہی سے میاؤں۔ چنانچہ اس کے بعد سے پاکستانی سیاست میں جمہوری لیڈران کا جو حشر ہوتا رہا ہے وہی سب کچھ عمران خان کے ساتھ شروع ہوا۔ وہ اقتدار سے باہر ہو گئے۔ پھر جیل گئے اور آخر میں ضمانت پر باہر آئے۔ اس بیچ وہ آئی ایس آئی چیف، جن کا عمران خان نے تبادلہ کیا تھا، جنرل عاصم منیر اب نئے چیف بن گئے۔
زمیندارانہ نظام میں اپنے حریف سے بدلہ لینا ایک اہم عنصر ہوتا ہے۔ چنانچہ اب جنرل عاصم منیر ’خان صاحب‘ کو ٹھیک سے ان کی حیثیت بتا رہے ہیں۔ تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ٹوٹ رہی ہے۔ کبھی عمران خان کے سب سے قریبی دوست و سیاسی مشیر رہے جہاں گیر خان نے پی ٹی آئی چھوڑ کر نئی پارٹی بنا لی ہے اور ان کے بقول وہ اب ’ملک‘ کے مفاد میں سرگرم ہیں۔ پاکستان میں ’ملک کا مفاد‘ کے معنی نظام یعنی فوج کا مفاد ہوتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، عمران خان کے خلاف قتل کے الزام میں ایک مقدمہ بھی درج ہو گیا ہے۔ یعنی فوج نے عمران خان کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ نظام کی مخالفت ترک کریں ورنہ محض ان کی پارٹی ہی نہیں ختم کر دی جائے گی بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ان کو بھی قتل کے الزام میں پھانسی ہو سکتی ہے۔ سنہ 1979 میں پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی سربراہ جنرل ضیاء￿ الحق نے ایک جھوٹے قتل کے الزام میں پھانسی پر چڑھا دیا تھا۔
لب و لباب یہ کہ اب عمران خان کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ نظام کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہیں اور اپنی جان کی امان حاصل کرتے ہیں، یا پھر وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سولی پر چڑھنا پسند کرتے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ لیکن پاکستانی سیاست کا عمران خان ایپی سوڈ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس لیے پاکستانی سیاست میں ابھی چند اور اہم سین کا انتظار کیجیے۔