پاکستانی ہندوؤں کو بھی شہریت ترمیمی قانون منظور نہیں

   

اشفاق احمد
ہندوستان اس وقت احتجاج کی اس آگ میں جل رہا ہے جو کہ ملک کے دستور ،جمہوریت ،اتحاد کو ختم کرنیکی سازش کے خلاف بھڑک اٹھی ہے کیونکہ مودی حکومت کی جانب سے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کیا ہے جو کہ ہندوستان کے اتحاد کو توڑنے کے سوا کچھ نہیں۔ اس قانون کے خلاف ملک کے ہر گوشہ میں عوام کی برہمی اور احتجاج ہر لمحہ عروج کی سمت آگے بڑھ رہے ہیںاور دھیرے دھیرے اس نے ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے عالمی منظر نامہ میں اپنا احساس دلانا شروع کردیا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ پہلے امریکہ نے پھر اقوام متحدہ نے مودی حکومت کے خلاف اپنا موقف واضح کیا ہے لیکن اب جن پڑوسی ممالک کے اقلیتوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا جوڈھونگ بی جے پی حکومت کررہی ہے اس کا مزید بھونڈا خود پاکستان کے اقلیتوں نے پھوڑنا شروع کردیا ہے کیونکہ پاکستان کے ہندووں نے خود شہریت ترمیمی قانون (شتق) کو مسترد کردیا ہے۔ پاکستانی اقلیتوں نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والے نئے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی شدید مذمت کی ہے۔انہوں نے ہندوستان کی جانب سے نئے قانون کے تحت انہیں شہریت دینے کی پیش کش کو بھی مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ ہندوستان میں پناہ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور انہوں نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی انسانیت سوز پیش کش کو مسترد کردیا۔گلف نیوز میں شائع رپورٹ کے مطابق دبئی میں مقیم پاکستانی ہندو دلیپ کمار نے کہا ہندوستان سے متعلق قانون انسانیت کے روحانی اصولوں اور سناتن دھرم کے سراسر خلاف ہے۔ یا طبقاتی ، ذات پات اور فرقے سے قطع نظر ، تمام ہندوؤں پر مذہبی طور پرمتعین کردہ روایات کے خلاف ہے اور یہ انسانیت کے خلاف ہے کیونکہ آج ساری دنیا مذہب ،رنگ ونسل کے بھید بھاؤ کے خلاف لڑائی کررہی ہے تو دوسری جانب مودی مذہب کے نام پر سیاست کا گندہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ بحیثیت انسان ، ہم کسی بھی مذہبی پیروی سے قطع نظر کسی سے امتیازی سلوک نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہندوستان کے مسلمان دہشت گردی کا سامنا کریں۔ کمار نے مزید کہا کہ ہم اس قانون کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کے ہندوؤں کے لئے کسی بھی طبقہ پر مذہبی ظلم و ستم ناقابل قبول ہے۔ شارجہ میں مقیم پاکستانی کرسچن کمیونٹی کے رہنما ریورنڈ جوہن قادر نے کہا کہ پاکستانی عیسائی برادری نے بھی نیا شہریت ترمیمی بل مسترد کردیا۔ ہم پاکستان کے عیسائی ، ہندوستان میں پناہ لینے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ مجھے یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مودی کا شہریت بل اقلیتوں کا بالکل بھی احترام نہیں کرتا ہے کیونکہ یہ امتیازی سلوک اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔یہ ساری دنیا پر عیاں ہے کہ پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں کو ہراساں کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے ، ہندوستانی پارلیمنٹ نے حال ہی میں اپنے شہریت کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ہندو ، بودھ ، عیسائی ، پارسی اور جین برادریوں کو مذکورہ ممالک سے نقل مکانی کرنے والے شہریوں کے حقوق کی پیش کش کی ہے۔شہریت ترمیمی قانون ایک نیا منظور شدہ قانون ہے جس کا اطلاق ہندو ، عیسائی اور دیگر مذہبی اقلیتوں پر ہوتا ہے جو ہندوستان میں غیر قانونی طور پر مسلم اکثریتی ممالک بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان سے ہیں۔ وہ مذہبی ظلم و ستم کی شق کے تحت شہریت کے لئے درخواست دے سکتے ہیں۔تاہم ، اس قانون میں مسلمان مہاجرین یا تارکین وطن شامل نہیں ہیں۔ اس اقدام کو نقاد سیکولر ہندوستان میں بدلتی سیاست کا واضح اشارہ قرار دے رہے ہیں۔ ہندوستان میں ہندو آبادی ہے لیکن اس میں 200 ملین مسلمان اور دیگر اقلیتیں آباد ہیں۔شہریت ایکٹ 1955 کی یہ ترمیم جس کے تحت درخواست دہندہ (مذہب یا وطن سے قطع نظر) پچھلے 14 میں سے 11 سال تک ہندوستان میں مقیم ہونا ضروری ہے ، اس ضرورت کو 11 سال سے کم کرتے ہوئے چھ سال تک کردیا گیا ہے لیکن یہ سہولت صرف ہندوؤں ، سکھوں ، بدھسٹ ، جین ، پارسی اور تینوں ممالک کے عیسائیوں کیلئے ہے جبکہ ان تین ممالک سے نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کو ہندوستان کی شہریت نہیں دی جائے گی۔بظاہر یہ زیادہ متنازعہ قانون نہیں دکھائی دے رہا ہے لیکن اس کے دور رس نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے اسی وجہ سے ہندوستان بھر کے علاوہ دنیا کے کئی ایک مقامات پر اس نئے قانون کو مسترد کرنے کے لئے اس کے خلاف سخت احتجاج ہورہا ہے۔اس سے قبل پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست ، راجہ آسار منگلانی نے اپنے طبقے کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ہندو برادری متفقہ طور پر اس بل کو مسترد کرتی ہے ، جو ہندوستان کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔یہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندرمودی کو پاکستان کی پوری ہندو برادری کا متفقہ پیغام ہے۔ ایک سچے ہندو کبھی بھی اس قانون سازی کی حمایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون نے ہندوستان کے اپنے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ایکسپریس ٹریبیون نے رپوٹ کیا پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے ایک عیسائی رکن سینیٹر انور لال ڈین نے بھی کہا کہ اس قانون کا مقصد مذہبی جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا ہے۔یہ بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کی اپوزیشن پیپلز پارٹی کے ایک رہنما ڈین نے کہا کہ ہم اسے واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔انہوں نے کہا اس طرح کے غیر منصفانہ اور غیر منقولہ اقدامات کے ذریعے مودی حکومت مذہبی جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا چاہتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون کے ذریعہ مودی حکومت ہندوستان کے اتحاد کو توڑنا چاہتی ہے۔پاکستان کی ننھی سکھ برادری نے بھی اس متنازعہ قانون کی مذمت کی ہے۔ پاکستان میں بابا گرو نانک کے رہنما گوپال سنگھ نے کہا صرف پاکستانی سکھ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں سکھ برادری بھی اس اقدام کی مذمت کرتی ہے۔سکھ برادری ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی میں ایک اقلیت ہے۔ اقلیت کا رکن ہونے کے ناطے ہندوستان میں مسلم اقلیت کے درد اور خوف کا احساس کر سکتا ہوں۔ یہ محض ظلم و ستم ہے۔ سنگھ نے مودی پر زور دیا کہ وہ اقلیتوں کو باہر کرنے کے اقدامات بند کریں۔پاکستان میں ہندو اقلیت میں ہیں لیکن ابھی تک کوئی واضح سرکاری تعداد دستیاب نہیں ہے ، لیکن پاکستان ہندو کونسل نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان میں 8 لاکھ سے زیادہ ہندوآباد ہیں۔ان کی آبادی 220 ملین آبادی کا تقریبا 4 فیصد ہے۔ وہ بنیادی طورپر وادی سندھ میں صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں رہتے ہیں اور نصف سے زیادہ جنوب مشرقی ضلع تھرپارکر میں مرکوز ہیں جو ہندوستان سے متصل ہیں۔پاکستان کے بیشتر شعبوں میں ہندو اعلی مقامات پر ہیں جو سرکاری اداروں ، تجارت اور سول سروس میں تعلیم یافتہ اورمتحرک ہیں۔کونسل کے مطابق ، تقریبا 94 فیصد ہندو صوبہ سندھ میں رہائش پذیر ہیں اور 4 فیصد سے زیادہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رہ رہے ہیں ، جہاں اس آبادی کا ایک چھوٹا حصہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ صوبوں میں آباد ہے۔