پاکستان میں غیر یقینی صورتحال

   

تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی
ایک خواب سا دیکھا ہے، تعبیر نہیں بنتی
پاکستان میںانتخابی عمل مکمل ہوگیا ہے ۔ وہاں معلق پارلیمنٹ تشکیل پائی ہے اور کسی بھی جماعت کو وہاں کے عوام نے مکمل اقتدار نہیںسونپا ہے ۔ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی مقابلہ سے روکنے اور اقتدار پر قبضہ جمانے کی جو کوششیں دوسری جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ( ن ) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کی گئی تھی ان ساری کوششوں کے باوجود عمران خان کی پارٹی کی تائید والے آزاد امیدواروں نے 100 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ حالانکہ عمران خان کوبھی انتخابی عمل میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے لیکن یہ واضح ہوگیا ہے کہ ان کی پارٹی پر ہی پاکستان کے عوام کی زیادہ تعداد کا یقین ہے ۔ تمام تر کوششوں کے باوجود عمران خان کی سیاسی شناخت اور طاقت دونوں ہی نواز شریف اور آصف علی زرداری سے زیادہ محسوس ہوئی ہے ۔ اگر عمران خان کی پارٹی پر امتناع عائد نہیںہوتا اور عمران خان انتخابی میدان میںہوتے تو یہ بات طئے ہے کہ ان کی پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل ہوجاتی ۔ جو آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ان کی اکثریت کا تعلق عمران خان کی پارٹی سے تھا ۔ عمران خان کی پارٹی کے انتخابی نشان بیاٹ کو بھی انتخابات میں استعمال کرنے کی اجازت نہیںدی گئی تھی ۔ ساری کوششوں کے باوجود نواز شریف ‘ شہباز شریف ‘ ؑآصف علی زرداری اور بلاول بھٹو عمران خان کے تائیدی امیدواروں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ انتہائی غیر یقینی ہے اور اب یہیں سے بدعنوانیوں کا دور شروع ہوگا ۔ ارکان قومی اسمبلی کی خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہوجائیگا ۔ جو زیادہ بولی لگائے گا اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ ویسے بھی پاکستانی فوج کی جانب سے نواز شریف کی تائید واضح دکھائی دینے لگی ہے ۔ اس طرح ایک بار پھر کہا جاسکتا ہے کہ پاسکتان میں عوامی رائے کو یرغمال بنالیا گیا ہے اور جو بھی حکومت قائم ہوگی اس کو شائد منتخب اور نمائندہ حکومت کہنا درست بھی نہیںہوگا ۔ جو بھی حکومت قائم ہوگی وہ ایسا لگتا ہے کہ صرف فوج کے اشاروں پر کام کرے گی اور وہ فوج کی حمایت سے محروم ہونے کا خطرہ مول لینے کی اہل نہیں ہوگی ۔
پاکستان کے عوام نے انتخابی عمل میں جس طرح سے رائے دہی کی تھی وہ اپنی جگہ اہم تھی ۔ خاطر خواہ تعداد میں لوگ آگے آئے اور انہوں نے ووٹ کا استعمال کیا تھا ۔ تاہم ووٹوں کی گنتی میں بھی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے الزامات سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے جمہوری عمل پر سوال پیدا ہونے لگے ہیں۔ یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ باہر سے لائے گئے ووٹوں کو رائے شماری مراکز میں خلط ملط کرتے ہوئے ووٹوں کی گنتی کی گئی ہے ۔ کئی ایسے امیدواروں کو منتخب قرار دیا گیا جو ابتداء میں بہت پیچھے چل رہے تھے ۔ ان کے ووٹوں کی تعداد کافی کم رہی تھی ۔ تاہم اچانک ہی ان کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میںاضافہ شمار کیا گیا اور پھر انہیں کامیاب قرار دیا گیا ہے ۔ یہ سارا کچھ ایک ایسی صورتحال پیدا کرنے کیلئے ذمہ دار ہے جو پہلے سے زیادہ گنجلک اور غیر یقینی دکھائی دیتی ہے ۔ ایک مخلوط حکومت قائم ہونے کے آثار پیدا ہوگئے ہیںاور یہ بھی ایسا لگتا ہے کہ ارکان کی خرید و فروخت کے بغیر ممکن نہیںہوگا ۔ نواز شریف کی پارٹی کو 266 نیشنل اسمبلی میں 73 حلقوں پر کامیابی ملی ہے جبکہ بلاول کی پی پی پی کو 54 پر اکتفاء کرنا پڑا ہے ۔ عمران خان کے تائیدی امیدواروں کی تعداد 101 ہے اور اسے تشکیل حکومت کیلئے مزید 32 ارکان کی تائید درکار ہے ۔ نواز شریف اور عمران خان کی پارٹی دونوں نے ہی اپنی اپنی کامیابی کا اعلان کردیا ہے اور تشکیل حکومت کے اشارے دئے ہیں جس سے صورتحال اور بھی غیر یقینی ہوگئی ہے کیونکہ کسی کو بھی اکثریت حاصل نہیں ہے ۔
موجودہ غیر یقینی صورتحال میں کون کس کی تائید کرے گا اور کون کس کی تائید خرید پائیگا یہ ایک دلچسپ مرحلہ ہوگا ۔ ساری کوششیں ہو رہی ہیں کہ کسی طرح سے نواز شریف کو دوبارہ پاکستان کا وزیر اعظم بنادیا جائے ۔ پاکستانی فوج کی تائید کے ساتھ یہ زیادہ مشکل بھی نہیں ہے تاہم کس پارٹی کی تائید حاصل کی جائے گی یا پھر کتنے آزاد امیدواروں کی تائید خریدی جائے گی یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا ۔ اگر پاکستان کے عوام کی رائے کسی ایک پارٹی کے حق میں واضح دکھائی دیتی تو شائد صورتحال قدرے بہتر ہوتی تاہم موجودہ غیر یقینی کیفیت میں اب جہاں تشکیل حکومت میںمشکل ہے وہیں حکومت چلانا بھی آسان نہیں رہے گا ۔