پاکستان کی مسلم لیگ (ن) میں پھوٹ

   

اسلام آباد : مریم نواز شریف کے چیف آرگنائزر بننے کے بعد مسلم لیگ (نواز) میں کئی اختلافی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں، جس کی وجہ سے کئی حلقے میں یہ تاثر پھیل رہا ہیکہ پارٹی اختلافات اور تقسیم کا شکار ہورہی ہے۔چند ہفتوں پہلے نون لیگی رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پارٹی کی پالیسیوں سے نالاں نظر آئے جبکہ اس سے پہلے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اسحاق ڈار سے اختلاف کرتے ہوئے نظر آئے جس کے جواب میں سلمان شہباز نے مفتاح کو ہدف تنقید بنایا۔ نئی اختلافی آوازیں مسلم لیگ کے پی سے آرہی ہیں، جہاں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سابق ایم پی اے شمعون یار خان اور ان کے والد سردار مہتاب عباسی پارٹی کی پالیسیوں سے ناخوش نظر آتے ہیں۔مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سابق رکن خیبرپختونخواہ اسمبلی شمون یار خان کا کہنا ہیکہ اگر پارٹی کی صوبائی قیادت تبدیل نہ ہوئی تو اگلے انتخابات میں پارٹی کو سیاسی طور پر سخت دھکا لگ سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پارٹی کے وہ کارکنان جنہوں نے اخلاص کے ساتھ پارٹی کی خدمت کی ان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور صوبائی سطح پر پارٹی کے معاملات کو احسن طریقے سے نہیں چلایا جا رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں پارٹی کے ٹکٹ لینے کیلئے بہت سارے لوگ آگے آئے تھے اور اب قومی اسمبلی کی کچھ نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں، جس پر پی پی ٹی آئی کے لوگوں نے استعفے دیئے تھے۔اب دیکھنا یہ ہیکہ کتنے لوگ ٹکٹ لینے کیلئے آتے ہیں۔شمون یار خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی سے پارٹی کو شدید نقصان ہوگا۔ کیونکہ نون لیگ اس حکومت میں نمایاں ہے۔ حکومت مہنگائی اور دوسرے معاملات کے حوالے سے جو بھی فیصلے کر رہی ہے، اس کا پارٹی کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔ موجودہ مسلم لیگ کو کئی حلقے جی ایچ کیو کے قریب سمجھتے ہیں۔ شمعون یار خان کا کہنا ہیکہ ہر جماعت میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو طاقتور حلقوں سے اچھے مراسم رکھتے ہیں۔
یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ طاقت ور حلقوں سے بات چیت ہو سکے۔ طاقتور حلقوں کے حوالے سے ہماری پارٹی میں بھی سخت گیر لوگ بھی ہیں اور ایسے افراد بھی ہیں جن کا رویہ نرم ہے۔ ماضی میں چودھری نثار اور شہبازشریف کو نرم سمجھا جاتا تھا اور اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہیں۔