’’ پیش ہے تجھ کو سفر، زادِ سفر پیدا کر‘‘

   

محمد نصیرالدین
’’کورونا ‘‘ وائرس نے ساری دنیا کو موت کے خوف و دہشت میں مبتلا کردیا ہے کہ پتہ نہیں کورونا کب کس کو کہاں اور کیسے اپنا نشانہ بنالے!! موت کے خوف نے دنیا کو معمول کی زندگی کے مقابلہ میں لاک ڈاؤن ، کرفیو اور سماجی دوری اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے ، حتیٰ کہ عبادت گاہوں کو بند کردیا گیا ، شادی بیاہ جیسی تقاریب کو ملتوی کردیا گیا ، حتیٰ کہ کسی کی موت پر تعزیت و آخری رسومات تک کو محدود کردیا گیا ۔ تعلقات ، روابط ، رشتے ناطے دوستیاں سب کورونا کے خوف میں بے معنی ہوکر رہ گئیں۔ معاشی سرگرمیاں مدھم پڑگئیں۔ تعلیمی ادارے حتی کہ سیر و تفریح کے تمام مقامات کو بھی بند کردیا گیا ۔ امیر غریب حکمراں ، رعایا ، مرد و عورت ، شہری دیہاتی ، تعلیم یافتہ جاہل اور تمام ہی عقائد اور مذاہب کے لوگوں کو موت کے ڈر اور خوف نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
یقیناً موت ایک انہونی حقیقت ہے اور اس کا کوئی وقت اور مقام متعین نہیں ہے ۔ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا ’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے، جب بھی میں پلک چھپکاتا ہوں تو خیال کرتا ہوں کہ شائد میرے دونوں ہونٹ ملنے بھی نہ پائیں کہ اللہ روح قبض کرلے اور جب بھی پلک اٹھاتا ہوں تو خیال کرتا ہوں کہ پلک نیچے نہیں جھپکنے پائے گی کہ مرجاؤں گا اور جب بھی کوئی لقمہ منہ میں رکھتا ہوں تو خیال کرتا ہوں کہ لقمہ حلق سے نیچے نہیں اُترے گا کہ موت گلا گھونٹ دے گی ۔ ایک اور موقع پر فرمایا ’’ائے بنی آدم اگر عقل رکھتے ہو تو اپنے آپ کو مردہ شمار کرو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری روح ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آن کر رہے گی اور تم عاجز نہیں کرسکتے ‘‘۔ قابل مبارکباد ہیں وہ افراد جنہیں کورونا کے چلتے موت کے ڈر و خوف نے اپنے خالق و مالک سے جوڑ دیا ، اپنے رب اور آقا کی طرف متوجہ کیا اور آخرت کے لئے فکر و عمل کرنے کی توفیق بخشی۔ اس سے زیادہ بدنصیبی اور بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ساری دنیا موت کے ڈر و خوف میں تو مبتلا ہے لیکن اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع کرنے اور متوجہ ہونے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ دنیا ابھی اس حقیقت کو قبول نہیں کرسکی کہ ’’یہ دنیوی زندگی بس چند دنوں کے استعمال کیلئے ہے اور آخرت ہی رہنے کی اصل جگہ ہے‘‘۔ (المؤمن) و نیز اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’جو شخص دنیا کو محبوب بنائے گا وہ اپنی آخرت کا ضرور نقصان کرے گا ، پس عقل و دانش یہی ہے کہ فانی کے مقابلہ میں باقی کو اختیار کیا جائے ‘‘۔ کورونا وائرس جو کچھ بھی ہو اور اس کی ہلاکت خیزی بھی چاہے جیسی اور جتنی بھی ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کورونا کا شکار اور اس سے محفوظ سبھی انسانوں کو اللہ کے دربار میں دیر یا سویر اپنے رب کے حضور حاضری دینی ہے۔ اپنی دنیوی زندگی کا حساب دینا ہے اور اس کے مطابق جزا یا سزا کا مستحق بننا ہے۔ یہ بات انتہائی مسرت و اطمینان کی ہے کہ کورونا کے چلتے لاک ڈاؤن کے دوران عام لوگوں کی تکالیف اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے بے شمار نیک دل اور خیر کے طالب افراد نے پیش قدمی کی اور متاثرین کو اناج و دیگر ضروری امداد کا قابل قدر کام انجام دیا ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران اپنی آخرت کو سنوارنے کیلئے اپنے ا پنے طور سے بہت عمدہ کام انجام دیئے ہیں اور انشاء اللہ وہ سب اپنی نیت اور جذبۂ عمل کے مطابق نوازے جائیں گے ۔
کورونا وائرس کے قہر نے بے شمار لوگوں کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ ان اسباب اور وجوہات کو معلوم کریں اور پتہ کریں کہ آخر یہ کیسا وائرس ہے ، کیوں اس نے قہر برپا کر رکھا ہے اور اس کا قہر کیسے تھم سکتا ہے ؟ لیکن دنیا کے تمام ماہرین طب ، معروف سائنسداں ، دانشور و محققین اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں بلکہ یہ کہنے لگے ہیں کہ کورونا اور انسان کا رشتہ گویا میاں اور بیوی کا رشتہ ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے ؟ لیکن خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جواب پندرہ سو سال قبل دیتے ہوئے فرمایا ’’اگر کسی قوم میں ’’زنا‘‘ علانیہ ہونے لگے تو انہیں ایسی ایسی بیماریاں لاحق ہوں گی جو پہلے کے لوگوں میں نہیں تھیں‘‘۔ مزید یہ فرمایا کہ جب لوگوں کا حال یہ ہوجائے کہ وہ برائی کو دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں اور ظالم کو ظلم کرتے ہوئے اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ میں لے لے۔ خدا کی قسم تم کو لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے ، تم کو سخت تکلیفیں پہنچائیں گے پھر نیک لوگ خدا سے دعائیں مانگیں گے اور وہ قبول نہ ہوں گی‘‘۔ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ پیارے نبیؐ کی مذکورہ دونوں باتیں صد فیصد درست ہورہی ہیں تو پھر دیر کس بات کی ! ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت اسلامیہ اٹھ کھری ہو اور صدق دل کے ساتھ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا فریضہ انجام دے ۔ یہی وہ راہ ہے جس کے ذریعہ معاشرہ کی نت نئی بیماریوں کو روکا جاسکتا ہے اور ظلم و زیادتیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔ ظاہر ہے ان کوششوں کے بغیر محض دعاوں کے ذریعہ صورتحال میں کسی بھی تبدیلی کی توقع رکھنا فضول و عبث ہے ۔ مومن و مسلم کی زندگی دراصل سفر آخرت ہے اور اس سفر کے لئے اہم زادِ راہ امر بالمعروف ونھی عن المنکر ہے اور یہی دنیاوی مسرت و کامیابی اور آخرت کی فلاح و نجات کا ضامن ہے ۔ اس راہ کو چھوڑ کر کوئی بھی دوسری راہ حتیٰ کہ دعائیں بھی کارگر نہیں ہوسکتیں !! امید کہ اُمت مسلمہ ہدایت نبویؐ کی اتباع میں امر بالمعروف کے فریضہ کو انجام دینے کے لئے مناسب منصوبہ بندی اور منظم لائحہ عمل کے ساتھ میدان عمل میں جہد مسلسل کرے گی اور دنیا سے محض کورونا ہی کا نہیں بلکہ ہر قسم کے ظلم و زیادتی کا بھی خاتمہ کرے گی۔
پیش ہے تجھ کو سفر ، زادِ سفر پیدا کر
آخرت میں نیک عمل ہی کام آئیں گے