چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

   

تبلیغی مرکز… چھوٹی غلطی کی بڑی سزا
گودی اور مودی میڈیا… بے لگام

رشیدالدین

کورونا کا قہر ملک میں دن بہ دن شدت اختیار کر رہا ہے ۔ زندگی کو بچانے کیلئے طرح طرح کے تدابیر اختیار کی جارہی ہے ۔ ہندوستان ہی نہیں دنیا پر سوپر پاور کا دھونس جمانے والے طاقتور ممالک بھی ایک وائرس کے آگے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک طرف موت کا کھیل تو دوسری طرف زندگی بچانے کے جتن قیامت صغریٰ سے کم نہیں۔ زندگی اور موت کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اختلافات بالائے طاق رکھ کر کورونا کو شکست دینے جنگ کا اعلان کرچکے ہیں۔ دنیا بھر کے سائنسداں موت سے بچاؤ کی دوا یا کسی ویکسن کی تیاری کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ امریکہ سمیت کئی ممالک کے حکمرانوں کی آنکھوں میں بڑی تباہی اور ہلاکتوں کا منظر گھوم رہا ہے۔ کوئی بھی وباء کسی مخصوص علاقہ ، زبان ، مذہب اور مسلک تک محدود نہیں ہوتی۔ دولت مند ہو یا غریب ، گورا ہو کہ کالا ، بچہ ہو کہ بوڑھا ان میں کوئی فرق نہیں کرتی بلکہ وباء کا کام صرف اور صرف تباہی ہوتا ہے ۔ وباء اور قضاء دونوں زندگی کے لئے خطرہ ہیں اور ان کے درمیان کوئی رکاوٹ یا ڈھال ہے تو وہ خطا ہے ۔ اگر انسان خطا کر بیٹھے تو وباء کا شکار ہوکر قضاء کو گلے لگالے گا ۔ وباء سے بچنے کے لئے عوام خود کو گھروں میں قید کرچکے ہیں اور حکومت کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے تحدیدات عائد کرچکی ہے ۔ انسانی تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع ہے جب 200 سے زائد ممالک میں زندگی تھم سی گئی ہے۔ بازاروں کی رونقیں ویرانوں کا منظر پیش کر رہی ہے ۔ ان حالات میں ہر کسی کو کورونا کو ہرانے کی فکر ہے۔ ملک میں ایک طرف بدنظمی اور لاپرواہی تو دوسری طرف عصبیت ایک دوسرے کا تعاقب کر رہے ہیں ۔ کورونا سے بچنے اور ملک کو بچانے کی فکر کے بجائے ’’بلیم گیم‘‘ شروع ہوچکا ہے۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ دشمن فوج کسی بادشاہ کے قلعہ میں داخل ہوگئی اور دشمن سے مقابلہ کے بجائے یہ بحث چل رہی ہے کہ قلعہ کا دروازہ آخر کس نے کھولا۔ یہی بحث قلعہ کو دشمن کے حوالے کردے گی۔ ٹھیک اسی طرح ہندوستان میں ٹی وی چیانلس میں بحث جاری ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کے لئے ذمہ دار کون ہے ۔ رونا اسی بات ہے کہ کورونا کے خطرہ سے زیادہ وجوہات کو تلاش کیا جارہا ہے ۔ اگر کورونا کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا گیا تو رونا ملک کا مقدر بن جائے گا۔ ایسے وقت جبکہ چین ، کوریا ، ایران اور اٹلی میں کورونا موت کا ننگا ناچ جاری تھا، ہندوستان خواب غفلت کا شکار رہا۔ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کی طرح مرکز نے کورونا دور است کا نعرہ لگایا ۔ 13 مارچ کو مرکزی وزارت صحت نے کورونا کے امکانی خطرہ کو مسترد کردیا۔ اس کے بعد 19 مارچ کو نریندر مودی نے جنتا کرفیو کا اعلان اور سماجی فاصلہ کی صلاح دی۔ ڈسمبر میں کورونا نے اپنے وجود کا اعلان کیا۔ جنوری اور فروری تک کئی ممالک میں تباہی مچائی لیکن ہندوستان کی ترجیحات مختلف تھیں، لہذا وائرس کے خطرہ کو عمداً نظر انداز کیا گیا ۔ ماہرین کے مطابق اگر جنوری سے احتیاطی قدم اٹھائے جاتے تو آج کا دن دیکھنا نہ پڑتا۔ راہول گاندھی نے 12 فروری کو ٹوئیٹ کر کے کورونا کے خطرہ کی وارننگ دی تھی جس پر بی جے پی قائدین اور بعض ٹی وی چیانلس نے مذاق اڑایا تھا ۔ مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے 5 ما رچ کو ٹوئیٹر پر گاندھی خاندان کو نشانہ بناتے ہوئے عوام کے حوصلے پست کرنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے ورلڈ ہیلت آرگنائزیشن کے حوالے سے کہا تھا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ جب کوئی خطرہ نہیں تھا تو 15 دن میں ایسی کیا بات ہوگئی کہ ملک بھر میں 21 روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کرنا پڑا۔ پتہ یہ چلا کہ وائرس کے پھیلاؤ اور ہلاکتوں کیلئے حکومت کی لاپرواہی اصل ذمہ دار ہے۔ اب حکومت کو بچانے کیلئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ 13 تا 15 مارچ نظام الدین تبلیغی مرکز سے کور ونا کا جنم ہوا۔ اگر یہ درست ہے تو اس سے قبل کہ متاثرین اور ہلاکتوں کو کیا نام دیں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نظام الدین مرکز کے اجتماع کے بعد سے وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آئی ۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ تبلیغی مرکز کے ذمہ داروں کی بے حسی اور لاپرواہی نے نہ صرف متاثرین کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ دوسروں کو تنقید کا موقع فراہم کردیا۔ حکومت بھلے ہی سو رہی تھی لیکن صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اجتماع ملتوی کیا جانا چاہئے تھا ۔ متاثرہ ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی آمد اور ہجوم کی صورت میں تیزی سے پھیلاؤ کے خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے اجتماع ملتوی کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی ۔ آپ دین کے کام میں مصروف کیوں نہ ہوں لیکن وباء کی صورت میں اسلام نے احتیاطی تدابیر کی تعلیم دی ہے کیونکہ انسانی جانوں کے لاپرواہی کے سبب اتلاف کو ناپسند قرار دیا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد سینکڑوں افراد کی مرکز سے منتقلی میں یقیناً دشواری تھی لیکن کورونا کی علامات ظاہر ہونے پر فوری میڈیکل ٹیم کو طلب کرتے ہوئے معائنوں اور علاج کے لئے حکومت کی مدد حاصل کی جاسکتی تھی۔ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ متاثرہ ممالک سے آنے والے مسافرین کی ایرپورٹ پر جانچ کرتی۔ لاک ڈاؤن کے بعد جب منتظمین نے پولیس کو بیر ونی اور مقامی افراد کی تفصیلات حوالے کیں لیکن پولیس اور نظم و نسق حرکت میں نہیں آیا۔ کیا یہ لاپرواہی قابل معافی اور محض اتفاق ہے یا پھر مرکز نظام الدین میں وائرس کے پھیلاؤ کا انتظار کیا گیا تاکہ اسلام اور مسلمانوںکے خلاف مہم کا ہتھیار مل سکے ۔

تبلیغی مرکز کے ذمہ داروں کی چھوٹی سی غلطی نے سینکڑوں افراد کی زندگی کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ اجتماع شریک افراد کا کوئی قصور نہیں ، تاہم ذمہ داروں کو اپنا فریضہ یاد کرتے ہوئے کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئے تھی ۔ اس لاپرواہی نے بین الاقوامی سطح پر تبلیغی جماعت کی بدنامی کا سامان کیا ہے۔ وہ طاقتیں جو تبلیغی کام سے خوف زدہ ہیں، متحد ہوکر مہم کا آغاز کرچکی ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سنگھ پریوار اور گودی میڈیا نے حکومت کی ناکامیوں پر پردہ پوشی کے لئے تبلیغی مرکز کا سہارا لیا۔ سنگھ پریوار کا کام ہی موقع سے فائدہ اٹھانا ہے لیکن انہیں یہ موقع ہم نے دیا ہے۔ تبلیغی مرکز کی قیادت کو موجودہ حالات میں روپوشی کے بجائے جرات مندی اور استقامت کے ساتھ صورتحال کا سامنا کرنا چاہئے ۔ حکومت ہو کہ میڈیا اب کسی کو بیماری اور اس کے علاج کی فکر نہیں بلکہ انہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کا بہترین موقع ہاتھ آچکا ہے ۔ افسوس اس بات پر ہے کہ امتحان کی اس گھڑی میں بعض مسلم ادارے مسلکی عصبیت کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں جو انتہائی بدبختانہ ہے ۔ تباہی اور کسی کی بدنامی کو مسلک کی عینک سے دیکھنا مسلمانوں کے کاز کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ مصیبت کی اس گھڑی میں امت مسلمہ کو جسد واحد کی طرح کھڑا ہونا چاہئے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت پر خوشی کا ا ظہار نہ کرو، اللہ کہیں اسے مصیبت سے نجات دیں گے اور تمہیں اس میں مبتلا کردے گا۔ جو لوگ تبلیغی کام کے سلسلہ میں مختلف ممالک سے ہندوستان آئے تھے، حکومت کی ذمہ داری تھی کہ انہیں واپس بھیج دیتی یا پھر آئسولیشن سنٹر منتقل کیا جاتا۔ آج تک بھی یہ کام نہیں کیا گیا اور کئی بیرونی سیاح خود دارالحکومت دہلی میں سیر و تفریح کرتے ہوئے پائے گئے۔ 13 تا 15 مارچ تبلیغی مرکز کے اجتماع پر اعتراض کرنے والے کیا اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ 16 مارچ تک سدی ونائک اور اجین کے منادر کھلے رہے۔ 17 مارچ تک شرڈی ، 18 مارچ تک ویشنو دیوی اور 20 مارچ تک کاشی کی وشواناتھ مندر بدستور کھلی رہی۔ اتنا ہی نہیں 23 مارچ تک پارلیمنٹ کا اجلاس جاری رہا۔ اس مدت میں صدر جمہوریہ نے ارکان پارلیمنٹ کی دعوت کی۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت کو زوال سے دوچار کرتے ہوئے بی جے پی نے حکومت تشکیل دی اور حلف برداری میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ لاک ڈاؤن کے بعد مہاجر ورکرس لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے مقامات واپسی کی تیاری کرنے لگے۔ ان تمام مقامات پر سماجی فاصلہ کہاں برقرار رکھا گیا ؟ لیکن میڈیا کو سب کچھ دکھائی نہیں دیتا، اسے تو صرف تبلیغی مرکز کی فکر ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ القاعدہ اور پاکستان سے تعلق جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بعض مبصرین نے امریکی صدر ٹرمپ کے 24 اور 25 فروری دورہ ہندوستان پر بھی سوال اٹھائے۔ ہندوستان میں 30 جنوری کو کور ونا کا پہلا کیس منظر عام پر آیا ، اس کے با وجود ٹرمپ کو دورہ کی دعوت دی گئی۔ اُن کے ساتھ سیکوریٹی اور دوسرے کئی سو کی تعداد میں تھے۔ اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ امریکہ سے آنے والے افراد میں وائرس نہیں تھا۔ دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال نے دوسری مرتبہ اپنی اصلیت ظاہر کردی ہے۔ نئی دہلی میں مسلم کش فسادات ، عبادت گاہوں کو آگ لگانے اور بے قصوروں کو زندہ جلانے پر کجریوال خاموش رہے ۔ جامعہ ملیہ پر حملہ اور جے این یو پر حملہ کے وقت بھی زبان پر تالے تھے۔ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی زہر افشانی کے باوجود کجریوال نے ایف آئی آر درج کرنے کی بات نہیں کی لیکن آج گودی میڈیا کے زیر اثر تبلیغی اکابرین کے خلاف ایف آئی آر کی تائید کر رہے ہیں۔ دہلی میں کورونا وائرس کی تباہی سے زیادہ مسلم کش فسادات میں جان و مال کا نقصان ہوا لیکن کجریوال کو متاثرین سے ملاقات کی توفیق تک نہیں ہوئی۔ ایسے تمام نام نہاد سیکولر قائدین سے چوکنا رہتے ہوئے مسلمانوں کو فروعی اختلافات ختم کرتے ہوئے متحد ہوکر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے ؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں