چور دروازہ سے آندھی نہیں آیا کرتی

   

راجستھان …حکومت بچ گئی… خطرہ برقرار
کورونا … عوام پریشان … مودی انجان

رشیدالدین
عزائم صلاحیتوں کا بدل نہیں ہوسکتے۔ عزائم کے ساتھ صلاحیت یا پھر صلاحیت کے ساتھ عزائم جڑجائیں تو کامیابی ہر موڑ پر قدم چومے گی۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ان دنوں سینئر اور جونیئر کا ٹکراؤ دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کو صلاحیتوں اور عزائم میں زور آزمائی بھی کہہ سکتے ہیں۔ دیگر شعبہ جات کے مقابلہ سیاسی میدان میں یہ صورتحال زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ کرسی اور اقتدار جلد حاصل کرنے کے جذبہ نے دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ کم کردیا ہے۔ جونیئر قائدین اپنے سینئرس کی قیادت اور رہنمائی قبول کرنے تیار نہیں۔ وہ خود کو صلاحیتوں کی آخری منزل پر سمجھنے لگے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا اندازہ نہیں کہ سینیاریٹی کے ساتھ تجربہ اور صلاحیت انسان کو کامیاب اور ناقابل تسخیر بنادیتی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی کامیابی کا راز عزائم کے ساتھ صلاحیت اور تجربہ کا امتزاج ہوتا ہے۔ جب کبھی کسی ایک کی کمی یا زیادتی ہوجائیں تو توازن کا بگڑنا یقینی ہوجاتا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں میں سینئر اور جونیئر کا ٹکراؤ کا رجحان عام ہے لیکن کانگریس پارٹی نے یہ صورتحال کچھ زیادہ بے قابو دکھائی دے رہی ہے۔ پارٹی ہائی کمان میں پاور سنٹرس ایک سے زائد ہیں جس کے نتیجہ میں قدیم اور جدید قائدین میں خلیج بڑھتی جارہی ہے ۔ جونیئرس جلد کرسی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سینئرس کرسی سے چمٹے رہنے کو اپنا مقصد بناچکے ہیں ۔ نوجوانوں کو قابلیت پر زعم ہے تو سینئر قائدین کو وفاداری اور دیرینہ تجربہ پر ناز اور غرور ہے۔ ایک طرف کرسی کے حصول کی جلدی تو دوسری طرف سینئر قائدین نوجوان نسل کیلئے کرسی خالی کرنے تیار نہیں۔ سینئرس اور جونیئرس کی اس رسہ کشی نے مدھیہ پردیش میں کانگریس کو اقتدار سے محروم کردیا اور اب راجستھان میں اشوک گہلوٹ حکومت پر خطرہ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ وقتی طور پر حکومت زوال سے بچ گئی لیکن بحران ابھی باقی ہے۔ بی جے پی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کرناٹک اور مدھیہ پردیش کے تجربہ کو دہرانے کیلئے موقع کی تاک میں ہے۔ مدھیہ پردیش میں جونیئر سندھیا اور راجستھان میں سچن پائلٹ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اقتدار میں حصہ داری دی گئی ۔ مضبوط سیاسی وراثت کے حامل دونوں نوجوان نے سینئر قائدین کو نظر انداز کرتے ہوئے چیف منسٹر کے عہدہ پر دعویداری پیش کردی۔ اسی خواب کی تکمیل میں سندھیا بی جے پی میں جا پہنچے جبکہ حکومت گرانے کا سندھیا کا فارمولہ اپنانے کی کوشش میں سچن پائلٹ ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ اشوک گہلوٹ سے مات کھا گئے۔

سچن پائلٹ کی قیادت میں اسمبلی چناؤ لڑے گئے۔ پارٹی کو اکثریت حاصل ضرور ہوئی لیکن اشوک گہلوٹ کے حامی بڑی تعداد میں منتخب ہوئے ۔ باوجود اس کے پائلٹ کو ڈپٹی چیف منسٹر بناتے ہوئے پردیش کانگریس کی صدارت پر برقرار رکھا گیا۔ حالانکہ ایک شخص ایک عہدہ اصول کے تحت یہ ممکن نہیں تھا۔ حکومت میں رہتے ہوئے پائلٹ کا رویہ ہمیشہ ٹکراؤ کا رہا لیکن اشوک گہلوٹ بردباری سے نبھاتے رہے۔ 50 اور 5 سال کے تجربہ میں فرق تو ہوتا ہی ہے اور ہر فن کا استاد ایک داؤ اپنے شاگرد سے بھی بچاکے رکھتا ہے تاکہ اگر کبھی شاگرد بغاوت کردے تو استادی داؤ سے پچھاڑ سکیں۔ ایسا ہی کچھ راجستھان میں ہوا۔ پانی جب سر سے اونچا ہوگیا تو گہلوٹ نے اپنا داؤ چل کر پائلٹ کو اپنا پلین ٹیک آف کرنے پر مجبور کردیا۔ حکومت اور ارکان اسمبلی پر گہلوٹ کی مضبوط گرفت کے نتیجہ میں پائلٹ کے 30 نشستی پلین کی نصف نشستیں خالی رہ گئیں۔ پائلٹ نے 30 ارکان کی تائید کا دعویٰ کیا تھا لیکن صرف 18 ارکان ان کے ساتھ دیکھے گئے ۔ ایک طرف پائلٹ عہدوں سے محروم ہوگئے تو دوسری طرف ان کے بشمول دیگر 18 ارکان کو اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کا سامنا ہے۔ بی جے پی جو مدھیہ پردیش کا کھیل دہرانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی، اس نے بھی دوری اختیار کرلی کیونکہ 30 ارکان کی صورت میں وہ تشکیل حکومت کا دعویٰ کرسکتی تھی۔ گزشتہ ماہ راجیہ سبھا الیکشن میں حکومت کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث بعض افراد کی فون ٹیاپنگ میں پتہ چلا تھا کہ سچن پائلٹ بی جے پی سے ربط میں ہیں۔ تحقیقات کے سلسلہ میں جب پولیس نے سچن پائلٹ کو نوٹس کیا دی ، پائلٹ نے بغاوت کردی جو آخرکار ناکام ثابت ہوئی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ سچن پائلٹ کو راستہ سے ہٹانے کیلئے گہلوٹ نے تحقیقات اور نوٹس کی صورت میں استادی داؤ کھیلا۔ حکومت بھی بچ گئی اور راستہ کا کانٹا بھی دور ہوگیا۔ پائلٹ اب کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنا پلین بی جے پی ایرپورٹ پر لینڈ نہیں کریں گے لیکن اب کافی دیر ہوچکی ہے، جو نقصان ہونا تھا عجلت پسندی کے سبب ہوگیا اور جگ ہنسائی کا اپنے ہاتھوں انتظام کیا۔

سینئرس اور تجربہ کار قائدین کو نظر انداز کرنے کا آغاز اس وقت ہوا جب لوک سبھا انتخابات سے قبل راہول گاندھی کو کانگریس کا صدر مقرر کیا گیا۔ انتخابات میں راہول کا کرشمہ نہیں چلا اور عوام نے پھر ایک بار کانگریس کو مسترد کردیا جس کے بعد کانگریس کے ہوش ٹھکانے آئے اور قیادت دوبارہ سونیا گاندھی کو سونپ دی گئی۔ راہول گاندھی کے بعض ناعاقبت اندیش فیصلوں نے جونیئر قائدین کو سینئرس کے خلاف بغاوت کا حوصلہ دیا ہے ۔ موجودہ صورتحال کانگریس کے مستقبل کیلئے اچھی علامت نہیں ہے۔ ایسے وقت جبکہ بی جے پی سے نمٹنے کیلئے ایک مضبوط کانگریس کی ضرورت ہے ، قیادت کی کوتاہیوں کے نتیجہ میں اہم ریاستوں میں اقتدار سے محرومی کا سلسلہ جاری ہے۔ کرناٹک کے بعد مدھیہ پردیش میں حکومت سے محرومی سے کانگریس نے سبق نہیں لیا۔ پارٹی کے اندرونی حلقوں کا ماننا ہے کہ راہول گاندھی کو سینئرس سے زیادہ جونیئرس پر بھروسہ ہے، حالانکہ جونیئرس کے مشوروں نے نہ صرف لوک سبھا بلکہ کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو شکست سے دوچار کردیا۔ سچن پائلٹ کے معاملہ میں کانگریس ہائی کمان کا رویہ نرم ہے اور امید کی جارہی ہے کہ پائلٹ کے خلاف کی گئی کارروائی واپس لی جائے گی ۔ ویسے بھی پائلٹ کے پاس گھر واپسی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ ریاستی یونٹس پر ہائی کمان کی گرفت کمزور ہوچکی ہے۔ پارٹی دو گروپس میں تقسیم نظر آرہی ہے۔ ایک سونیا کے وفادار تو دوسرے راہول بریگیڈ۔ کانگریس نے اگر اپنی صفوں کو درست نہیں کیا تو آئندہ لوک سبھا انتخابات میں پھر ایک بار مایوسی کے سواء کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ صلاحیت اور تجربہ کو یکساں طور پر استعمال کرتے ہوئے بی جے پی سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔

اسی دوران ملک میں کورونا کی تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت صورتحال میں بہتری کا دعویٰ کرر ہی ہے لیکن بنیادی حقائق اس دعویٰ کی نفی کرتے ہیں۔ ملک کی کئی ریاستوں نے کورونا سے نمٹنے کے لئے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا جن میں بہار ، کرناٹک ، مہاراشٹرا ، ٹاملناڈو اور اڈیشہ شامل ہیں لیکن مرکزی حکومت قومی سطح پر کوئی فیصلہ لینے تیار نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی حکومت کورونا کی تباہی سے جان بوجھ کر انجان بن رہی ہے۔ حکومت کو عوام کی زندگیوں کے ضائع ہونے کی کوئی فکر نہیں اور وہ صرف معیشت کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرچکی ہے۔ تلنگانہ بھی ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں کورونا کی تباہی عروج پر ہے۔ ملک کی متاثرہ ریاستوں میں تلنگانہ تیسرے نمبر پر آچکی ہے لیکن کے سی آر حکومت نئے سکریٹریٹ کی تعمیر سے دلچسپی رکھتی ہے۔ وزیراعظم عوام کی زندگیوں کو بچانے کے بجائے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ورچول کانفرنسوں سے خطاب کرنے میں مصروف ہیں۔ گھر والے بھلے ہی پریشان ہوں لیکن نریندر مودی کو باہر والوںکی فکر لاحق ہے۔ ناقدین نے درست کہا ہے کہ جو شخص اپنا گھر نہیں چلا سکا وہ ملک کو کیا چلا سکے گا۔ جس شخص کو گھر سنبھالنے کا تجربہ ہو، وہ ملک کو بہ آسانی سنبھال سکتا ہے۔ مظفر وارثی کا یہ شعر حالات پر صادق آتا ہے ؎
علی الاعلان کیا کرتا ہوں سچی باتیں
چور دروازہ سے آندھی نہیں آیا کرتی