چھٹی برسی کے موقع پر روہت ویمولا کو یا دکیاگیا

,

   

حیدرآباد۔ چھ سال قبل خودکشی میں موت سے قبل پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ روہت ویمولا نے کہاتھا ”اس کی فوری شناخت اور قریبی امکانات کی وجہہ سے ایک مرد کی قدر گھٹ جاتی ہے۔

ایک ووٹ کے لئے۔ ایک نمبر کے لئے۔ ایک چیز کے لئے۔ ایک شخص کو ایک ذہنیت کے طور پر ایک شخص کا رویہ کبھی نہیں رکھا جاتا۔ستاروں کی دھول سے بنی یہ ایک شاندار چیز ہے۔

ہر میدان میں‘ مطالعہ میں‘ گلیوں میں‘ سیاست میں‘ اور مرنے او رجینے میں“۔حیدرآباد یونیورسٹی کے ایک 26سالہ طالب علم روہت ویمولا نے سال2016میں 17جنوری کے روز خودکشی کے ذریعہ اپنی جان دیدی تھی کیونکہ دیگر چارلوگوں کے ساتھ اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی) جو آر ایس ایس کی اسٹوڈنگ وینگ ہے کی شکایت پر روہت ویمولا کو یونیورسٹی سے برطرف کردیاگیاتھا۔

اعلی تعلیمی اداروں میں ذات پات کے خلاف قومی سطح پر احتجاج کی وجہہ بھی ویمولا کی موت بنی تھی۔

اے ایس اے کے خلاف اے بی وی پی کی شکایت کے بعد اس معاملے کو سابق ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ منسٹر سمرتی ایرانی کے سپرد سابق مرکزی وزیر بنڈارو دتاتریہ نے کردیاتھا‘ ایرانی نے یونیورسٹی کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے میں کاروائی کرے جس کے بعد روہت ویمولاکو برطرف کرتے ہوئے ان کی 25000روپئے کی فیلو شپ کو بھی دستبردار کردیاگیاتھا۔

ویمولا کی یو او ایچ سے برطرفی مبینہ ”امبیڈکر اسٹوڈنٹس اسوسیشن(اے ایس اے) کے بیانر تلے اٹھائے جانے والے مسائل“ تھے۔

جب ویمولا او ردیگر کو ہوسٹل رومس سے زبردستی باہر کیاگیا اور انہیں بغیر گرانٹ کے مشکلات درپیش ہوئی تو انہوں نے یونیورسٹی کے شاپنگ کامپلکس پر ایک کیمپ نصب کرلیا تاکہ اس غیر شفاف فیصلے کے خلاف احتجاج کرے اور ساتھ میں بھوک ہڑتال شروع کردی تھی۔

اپنے پیچھے چھوڑے گئی پرچی میں دل دہلادینے والی باتیں ویمولا نے تحریر کی جس میں اپنی جدوجہد کو ذکر کیا اور اپنی پیدائش کو ایک ہولناک حادثہ بھی قراردیاتھا۔ اپنی خودکش نوٹ میں روہت نے لکھا تھاکہ”میری پیدائش ایک اندوہناک حادثہ ہے۔

میں اپنی بچپن کی تنہائی سے کبھی بازیافت نہیں ہو پایا۔

مذکورہ ناقابل تعریف لڑکا جومیرا ماضی ہے“۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے سماجی اناف کے بشمول بہت سارے ممبرس نے‘ طلبہ‘ جہدکاروں‘ اساتذہ نے ’روہت ایکٹ‘ یونیورسٹیوں میں نافذ کرنے کی مانگ کی ہے۔ ایک ایسا قانون جس کے ذریعہ تعلیمی اداروں میں پسماندہ طبقات کے طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنایاجاسکے۔

فبروری2016میں ایچ آر ڈی منسٹری نے الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج اشوک کمار روپان والا کو ویمولا کی موت کے متعلق حالات او رحقائق کی جانچ کے لئے مقرر کیاتھا۔

ایک دلت طالب علم کی موت کی تحقیقات کے لئے مذکورہ ایک رکنی کمیشن قائم کیاگیاتھا‘جس نے روہت کے چاہنے والوں میں خوف کی وجہہ بنا کیونکہ اقلیتی کمیونٹی سے کسی بھی فرد کو انتخاب نہیں کیاگیاتھا۔

اس کمیشن کی رپورٹ 15اگست2017کو شائع ہوئی‘ جس میں ان کے شکوک وشبہات ثابت ہوئے اور عدالتی نظام میں ان کے یقین کو شدید نقصان پہنچا۔

مذکورہ رپورٹ میں کہاگیاکہ ذات پات کے امتیاز کی وجہہ سے نہیں بلکہ ویمولا نے ”اپنے خود کے مسائل“ کی وجہہ سے خودکشی کی تھی۔

اس رپورٹ میں یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ویمولادلت نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں پسماندہ اور معاشی طور پر کمزور طبقات کے مسائل اور مشکلات کے معنی ہی بدل کر رکھ دئے تھے۔

اس رپورٹ پر بھی یواو ایچ کے اسٹوڈنٹس‘ ٹیچرس نے مظاہرین کے طور پر احتجاج کرتے ہوئے اس رپورٹ کی کاپیاں نذر آتش کیں اور ویمولا کے ساتھ انصاف کی مہم شروع کی تھی۔

مذکورہ امبیڈکر اسٹوڈنٹس اسوسیشن یونیورسٹی آف حیدرآباد نے 17جنوری2022کو ویمولا کی یاد میں ایک ان لائن پروگرام رکھا تھا اس ویمولا کی چھٹی برسی کو سماجی بائیکاٹ‘ ذات پات کے امتیاز کے خلاف جدوجہد کے دن کے طور پر منایا ہے۔