ڈونالڈ ٹرمپ کی دوبارہ پیشکش

   

یہ بھی تو التفات کا انداز ہے نیا
وہ مجھ سے مل کے میری شکایت نہ کرسکے
ڈونالڈ ٹرمپ کی دوبارہ پیشکش
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر میں ثالثی اور مصالحت کی پیشکش کی ہے حالانکہ ہندوستان نے ابتداء ہی سے یہ واضح کردیا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک باہمی مسئلہ ہے اور اس پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی یا مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اگر اس مسئلہ پر کوئی بات چیت ہوگی تو وہ صرف پاکستان کے ساتھ ہوگی ۔ ہندوستان کا یہ معلنہ اور مسلمہ موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایک باہمی نوعیت کا مسئلہ ہے اور کسی بھی تیسرے فریق کو چاہے وہ امریکہ ہی کیوں نہ ہو یا اقوام متحدہ جیسا ادارہ ہی کیوں نہ ہو اس میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جس وقت گذشتہ ہفتے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے وائیٹ ہاوز میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی اس وقت ہی ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر میں مصالحت کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور یہ حیرت انگیز دعوی بھی کیا تھا کہ خود وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے بھی ان سے مسئلہ کشمیر میں مصالحت کی خواہش کی ہے ۔ ٹرمپ کا یہ بیان حیرت انگیز تھا کیونکہ ہندوستان نے ہر موقع پر اور ہر فورم میں یہی بات کہی ہے کہ مسئلہ کشمیر باہمی مسئلہ ہے اور اس میں کسی بھی تیسرے فریق کی مصالحت یا ثالثی کا کوئی موقع نہیں ہے ۔ ٹرمپ کے بیان سے ہندوستان میں ایک طرح سے سیاسی ہلچل پیدا ہوگئی تھی اورا پوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کشمیر پر معلنہ موقف سے انحراف کرنے اور امریکی صدر کے دعوی پر وضاحت کرنے پر زور دیا تھا ۔ حالانکہ ہندوستان نے یہ بالکل واضح کردیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر کسی طرح کی مصالحت کی اور تیسرے فریق کے کسی رول کی کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم خود نریندر مودی نے اس پر لب کشائی سے گریز کیا ہے ۔ سرکاری سطح پر بیان ضرور دیدیا گیا ہے ۔ وزیر خارجہ ہند ڈاکٹر ایس جئے شنکر نے آج ٹرمپ کی دوسری پیشکش کے فوری بعد ایک بار پھر یہ وضاحت کردی ہے کہ اس مسئلہ میں کسی بھی طرح کی مصالحت یا ثالثی کی گنجائش نہیں ہے ۔ انہوں نے امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو سے بنکاک میں ملاقات کے دوران ہندوستان کے اس دیرینہ موقف کا اعادہ کردیا ہے ۔
ساری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس پر اگر کوئی تنازعہ ہے بھی تو وہ صرف پاکستان کے ساتھ ہے جو باہمی نوعیت کا ہے ۔ پاکستان ‘ کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے ۔ ہندوستان اس مسئلہ پر پاکستان کے ساتھ باہمی بات چیت ہی کا حامی ہے ۔ پاکستان کی جانب سے ماضی میں بیشتر موقعوں پر اس مسئلہ کو بین الاقوامی فورمس میں اٹھانے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ میں اس مسئلہ کو موضوع بحث بنانے کیلئے مساعی ہوئی ہے لیکن ہر بار ہندوستان نے اس طرح کی کوششوں کا موثر جواب دیا ہے اور ساری دنیا پر یہ واضح کردیا ہے کہ مسئلہ کشمیر باہمی نوعیت کا مسئلہ ہے اور اس میں کسی طرح کی مداخلت یا تیسرے فریق کے رول کی کوئی گنجائش نہیںہے ۔ اس ساری صورتحال کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ ایسا لگتا ہے کہ بارہا اس مسئلہ میں ثالث کا رول نبھانے کی پیشکش کرتے ہوئے ہندوستان پر دباو ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ہندوستان اس مسئلہ پر کسی طرح کا کوئی دباو قبول نہیں کریگا ۔ ٹرمپ بارہا ہندوستان سے اچھے تعلقات کا حوالہ دیتے رہے ہیں اور یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملہ میں خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ اب اس طرح کی پیشکش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ہندوستان سے اچھے تعلقات کا احترام کریں اور باہمی مسائل میں مداخلت سے گریز کریں۔ حالانکہ وہ یہ کہتے جا رہے ہیں کہ وہ مصالحت اسی صورت میں کرینگے جب دونوں ملک اس کیلئے رضامند ہوں۔ ہندوستان نے کئی دہوں سے یہی موقف اختیار کیا ہے اور اب بھی اسی پر قائم ہے کہ کسی طرح کی مداخلت قبول نہیں کی جائیگی ۔ ایسی صورت میں ٹرمپ کو باربار اس طرح کی پیشکش سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں پاکستان پر اثر انداز ہونا چاہئے کہ وہ دہشت گردی کے علاوہ عسکریت پسندی ‘ تخریب کاری اور در انداز ی کو روکنے کیلئے اقدامات کرے اور ہندوستان کے ساتھ اعتماد بحال کرنے میں سنجیدگی دکھائی ۔ اسی وقت دونوں ملکوں میں بات چیت ممکن ہوسکتی ہے ۔