کابل خودکش دھماکوں کا بائیڈن اور امریکہ پر اثر

   

راج موہن گاندھی
کابل ایرفیلڈ یا کابل ایرپورٹ اور اس کے اطراف و اکناف ہونے والی لمحہ بہ لمحہ تبدیلیوں کے بارے میں کسی قسم کی پیش قیاسی ناممکن ہے، لیکن وہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے، اس کے امریکہ اور دنیا کے بیشتر حصے پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ اس بات کی کوئی علامات نہیں پائی جاتی ہیں کہ امریکی صدر جوبائیڈن ری پبلیکن کی جانب سے ان کے استعفے کیلئے کئے جارہے مطالبات کو مانیں گے۔ کچھ ری پبلیکن ارکان نائب صدر کملا ہیریس کے حق میں مستعفی ہوجانے کا بائیڈن سے مطالبہ کررہے ہیں اور یہ سب کچھ حالیہ عرصہ کے دوران افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء اور پھر طالبان کے کنٹرول کے نتیجہ میں ہونے والی خطرناک تبدیلیوں کے پیش نظر کیا رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ آیا افغانستان سے امریکی فوج کے تخلیہ کے متعلق جوبائیڈن اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں گے یا نہیں اور یہ ایک حقیقت پسندانہ سوال بھی ہے۔ ایسا سوال جس کا جواب آسان نہیں۔ افغانستان میں تخلیہ کے دوران کابل ایرپورٹ پر خودکش دھماکے ہوتے ہیں اور ان دھماکوں میں مرنے والوں میں 13 امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔ امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا انتقام نہ لینا امریکی عوام کو بے چین کئے ہوئے ہے اور وہ موجودہ صورتحال کو ہضم نہیں کر پارہے ہیں۔
اگرچہ یہ محسوس ہورہا ہے کہ امریکی عوام کابل میں فی الوقت موجود امریکی فورسیس میں اضافہ کا مطالبہ کرسکتے ہیں، لیکن امریکہ میں عوام کا ایسا بہت بڑا حلقہ موجود ہے جو امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا سلسلہ جاری رکھنے کا مخالف ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت یہ نہیں چاہتی کہ امریکہ، افغانستان میں پھنسا رہے کیونکہ وہاں اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہورہا ہے۔ ویسے بھی جو خودکش دھماکے ہوئے، وہ کابل ایرپورٹ کے باہر ہوئے ہیں جبکہ امریکہ نے صرف 12 دنوں میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد امریکیوں اور اپنے اتحادی ممالک کے شہریوں کو وہاں سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی۔ ایک خطرناک تصور کئے جانے والے زون سے ان امریکیوں اور اتحادیوں کو نکالنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ویسے بھی افغانستان ہو یا کابل ایرپورٹ لمحہ بہ لمحہ وہاں حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اور ان حالات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سب لوگ حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ امریکہ، بیرونی ملکوں میں اپنی افواج جھونکنے سے گریز کرے گا۔ افغانستان اس کیلئے ایک تلخ تجربہ رہا ہے۔ جہاں تک کابل ایرپورٹ کے باہر خودکش دھماکوں اور اس میں درجنوں قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف کا سوال ہے، وہ مثال کے طور پر فلموں اور کتابوں کا حصہ بنیں گے۔ بہادری اور سانحات کے تذکروں کا حصہ ہوں گے۔ وہاں جو کچھ بھی ہو، اس کی توقع کی جارہی تھی۔ اب بھی وہاں خوف کا ماحول ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں امریکہ میں بہت ہی احتیاط سے کام لے گا، کیونکہ یہ بیرونی سرزمینوں پر اسے ذلت اُٹھانی پڑی، اس کے بعد امریکی پالیسی کی سمت تبدیل ہوجائے گی۔
اب تک ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے امریکہ پہنچ گئے ہیں اور عارضی طور پر ان میں سے اکثر امریکی فوجی اڈوں کے اطراف و اکناف مقیم ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں مزید کئی ہزار افغان باشندے امریکہ پہنچ جائیں گے۔ ان افغانیوں کی امریکہ آمد خود ایک بہت بڑا سیاسی سوال ہے۔ ری پبلیکنس نے ان افغان مہاجرین کی کثیر تعداد میں آمد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے ایک خطرہ سے تعبیر کیا۔ امریکہ میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ افغان اور دہشت ایک ساتھ چلتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بائیڈن نے ان افغان شہریوں کو امریکہ میں پناہ کی پیشکش کی ہے جنہوں نے پچھلے 20 برسوں کے دوران افغانستان میں امریکیوں کی کسی نہ کسی طرح کی مدد کی تھی۔ خاص طور پر افغان مترجمین وغیرہ۔
دوسری طرف کئی امریکیوں میں ان افغان مہاجرین کے خلاف ایک لہر پائی جاتی ہے اور ایسے امریکی بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان افغان شہریوں نے اپنی زندگیوں کو خطرہ میں ڈال کر امریکہ کی مدد کی تھی۔ اس معاملے میں ڈیموکریٹس آگے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ امریکہ کے وفادار افغان باشندوں کے ساتھ غداری کی جائے۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنی مدد کرنے والوں کو کیلئے امریکہ میں سیفٹی کا وعدہ کیا۔ عالمی تجزیہ نگار امریکہ کو اس بات کیلئے خبردار کررہے ہیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ بے وفائی کررہے ہیں جنہوں نے افغانستان جیسے گڑبڑ زدہ ملک میں امریکی فوجیوں کا تحفظ کیا تھا۔ امریکہ کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح امریکی باشندوں کی اہمیت رکھتی ہے ، اسی طرح افغان باشندوں کی اہمیت رکھتی ہیں۔ ویسے بھی ہمیشہ یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ ایک افغان شہری کی زندگی کی قدر و قیمت کیا ایک امریکی کی زندگی اور اس کی قدر و قیمت سے کم ہے؟ کیا کابل ایرپورٹ کے باہر خودکش دھماکوں میں جن افغان شہریوں اور بچوں کی نعشوں کے چیتھڑے نالوں کے کنارے پڑے ہوئے تھے۔ کیا وہ اسی طرح غم یا سوگ منانے کے مستحق نہیں اس طرح امریکیوں کی موت اور ان کے زخمی ہونے پر سوگ منایا جاتا ہے۔ اگر ایک ہندوستانی یہ دیکھ رہا ہے کہ امریکی اپنے فوجیوں کی ہلاکت پر اجتماعی غم مناتے ہیں، تو کیا یہ مرنے والے افغان اسی طرح سوگ منائے جانے کے قابل نہیں؟ اب یہ دیکھنا بہت زیادہ دلچسپی کی بات ہوگی کہ ہزاروں کی تعداد میں اپنے ملک سے ہزاروں میل دور نئی زندگیوں کا آغاز کرنے والے افغان باشندے آنے والے مہینوں اور برسوں میں کیا سوچیں گے اور کیا کریں گے؟ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ اپنے گھر کو فراموش کردیں گے اور اپنے عزیز و اقارب کو بھول جائیں گے جنہیں انہوں نے ہنگامی حالات میں چھوڑ آیا۔ ان افغان شہریوں میں سے کچھ شہری اس بات پر ضرور غور کریں گے کہ آخر وہ کونسی وجوہات تھیں کہ افغانستان تباہ و برباد ہوگیا۔
ہمیں یقین ہے کہ بیجنگ اب افغانستان میں جس طرح دلچسپی لے رہا ہے وہ دراصل روس اور امریکہ کی مسلسل ناکامیوں کے بعد کی جانے والی ایک کوشش ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اب افغانستان میں ترقی لانے کی کوشش کرے گا۔ چین میں بیٹھے دفاعی ماہرین و تجریہ نگار کابل کی موجودہ تبدیلیوں کو ایک ایسے اشارہ کے طور پر دیکھتے ہیں کہ واشنگٹن کی طاقت کم ہوتی جارہی ہے جبکہ دنیا بھر میں چین کا اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہے لیکن چینیوں کو خبردار یا چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی چینی چوکس رہنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ چین کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ ان حکمرانوں میں شامل نہ ہوں، جن کیلئے افغانستان بنا تھا قبرستان۔ چین عقل مند ہے، ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ اگرچہ افغانستان میں امریکی شکست پر چین میں جشن منایا گیا، لیکن اس بات کی کوئی علامت نہیں کہ بیجنگ ، افغانستان کے ایک بڑے خسارہ بشمول مالیاتی خسارے کو کم کرے گا۔ چین کے سرکاری ترجمان ’’گلوبل ٹائمز‘‘ کے مطابق صدر زی جن پنگ نے افغانستان میں تمام گروپوں کی جانب سے بات چیت کے ذریعہ ملک کی تعمیر نو کے آغاز پر زور دیا ہے۔ چینی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے میں مشمولیاتی سیاسی ساخت کی تعمیر کیلئے تمام گروہوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ ساتھ ہی میانہ روی پر مبنی اور دانشمندانہ داخلی اور خارجی پالیسیوں کو اپنانا اور ان پر عمل آوری کرنا ضروری ہے۔ چینی صدر کے خیال میں افغانستان کی نئی قیادت کو چاہئے کہ تمام دہشت گردانہ گروپس سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور مابقی دنیا سے دوستانہ تعلقات برقرار رکھے، خاص طور پر پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرے۔
اب یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ چین کیا رول ادا کرتا ہے۔ افغانستان کے بارے میں جو امیدیں وابستہ کی گئی ہیں، ان میں ہندوستان کا کردار بھی شامل ہے، جس طرح افغانستان کے تئیں چین کے کردار کی اہمیت ہے، اسی طرح ہندوستان کے کردار کو بھی بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان میں کردار کو لے کر یہ یہ طئے نہیں کیا جانا چاہئے کہ وہاں اس سے ہندوستان یا پاکستان کس کو فائدہ ہوگا۔ جہاں تک افغان شہریوں کا سوال ہے، وہ ہمارے پڑوسی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں افغان طلبہ، ہندوستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔ اور ان کی بہبود ہماری فکر ہونی چاہئے۔
نوٹ : راج موہن گاندھی یونیورسٹی آف ایلینائے، امریکہ میں پڑھاتے ہیں۔