کانگریس کی خاموشی ‘ یوپی کے لیڈران شیوپال یادو کے ساتھ الائنس کی حمایت میں

,

   

سماج وادی پارٹی کے باغی اور اکھیلیش یادو کے چچا شیو ل پادو کے ساتھ اترپردیش میں انتخابی اتحاد کے لئے 22کی پیشکش کے متعلق۔

لکھنو۔ ریاست میں پارٹی کے بہت سارے لیڈران کانگریس اعلی کمان پر پیشکش کو قبول کرنے کے لئے دباؤڈال رہے ہیں جبکہ ای ٹی کی سابقہ رپورٹ کے بموجب کانگریس کے ایک حصہ کا ماننا ہے کہ ’’ بی جے پی کے ہاتھوں کا کھلونا ہے اور وہ یادو ووٹوں کی تقسیم کے لئے سرگرم ہیں‘ جس پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا‘‘۔

یوپی سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ ’’ سیاست منجمد نہیں رہتی‘‘ شیوپال یادو کی پیشکش کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات کہی۔

مذکورہ شخص نے ای ٹی کو بتایا کہ ’’ جی ہاں ہماری پارٹی کی 2017میں ایک مخصوص بات چیت شیو پال یادو سے کی تھی کیونکہ ہم اسی طرح کی بات چیت اکھیلیش یاد و سے بھی کی (جب راہول گاندھی نے ایس پی کانگریس الائنس قائم کیاتھا)۔

اگر اکھیلیش رویہ اور سیاسی پیش قدمی بدل سکتے ہیں تو شیوپال یادو کیوں نہیں بدل سکتے؟؟۔ ریاست کے کانگریسی قائدین اس اتحاد کی حمایت کرتے ہوئے یوپی میں اکھیلیش کی کم ہوتی مقبولیت کے پیش نظر ہی اس کو پورا کرنے کے لئے مایاوتی کی زیرقیادت بی ایس پی سے ایس پی کا اتحاد ہوا ہے۔

ان کی دلیل ہے کہ شیوپال یادو کوشش کررہے ہیں کہ وہ مخالف بی ایس یادو حصہ فراہم کریں جو اپنا غصہ لوک سبھا انتخابات میں ظاہر کرنے چاہارہے ہیں۔

کانگریس چاہے تو اس کا فائدہ اٹھاسکتی ہے بالخصوص اس وقت سے جب مایاوتی یہ سمجھ رہی ہیں کہ وہ ’’ بڑے پیمانے پر مخالف کانگریس مقصد‘‘ کے لئے دہلی میں کام کررہی ہیں۔

مذکورہ کانگریس قائدین کی دلیل ہے کہ اگر تین رخی لڑائی ایس پی‘ بی ایس پی‘ بی جے پی او رکانگریس میں ہوتی ہے تو ’’ ایس پی بی یس پی کے لئے مخصوص لڑائی ‘‘ زمینی حقیقت نہیں بن سکے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ایس پی بی ایس پی اتحاد دہلی کے انتخابات کے بعد کانگریس کے لئے مشکلات کا سبب بنے گا۔چنانچہ ان کی دلیل کانگریس کو ایس پی بی ایس پی اتحاد پر درمیانی موقف اختیار کرنا چاہئے‘ تاکہ انتخابات کے بعد اتحاد کے لئے بات چیت کے دروازے بھی کھلے رہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ شیوپال یادو کی پیس پارٹی کے ساتھ اتحاد بھی زیادہ فائدہ مند ہوسکتا ہے