کبھی بھی وقت نے اُن کو نہیں معاف کیا

   

t کشمیر قابو سے باہر … مودی ملک سے باہر
t عوام خوش ہیں تو محروس کیوں ؟

رشید الدین

وزیراعظم نریندر مودی اپنے پسندیدہ اور محبوب مشغلہ میں دوبارہ سرگرم ہوچکے ہیں۔ قارئین کو شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پسندیدہ شوق کیا ہے۔ پہلی میعاد میں مودی کے احوال دیکھنے والے یقینا بے ساختہ کہیں گے کہ بیرونی تفریح وزیراعظم کا محبوب مشغلہ ہے۔ پہلی میعاد میں ملک کی تمام ریاستوں کا دورہ بھلے ہی نہ کیا ہو، لیکن 59 بیرونی ممالک کے دورہ کا ریکارڈ قائم کیا۔ اگر بیرونی دوروں کی یہی رفتار برقرار رہی تو نہ صرف ورلڈ ٹور مکمل ہوجائے گا بلکہ ’’واسکوڈی گاما‘‘ کی طرح بعض نئے ممالک کو کھوج نکالیں گے۔ ملک کے حالات چاہے کچھ ہوں لیکن نریندر مودی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پانچ برسوں میں 53 بیرونی دوروں کے ذریعہ 59 ممالک کا احاطہ کسی ریکارڈ سے کم نہیں۔ کسی اور ملک کے وزرائے اعظم نے پانچ برسوں میں شاید ہی اس قدر بیرونی دورے کئے ہوں گے۔ عوام نے اقتدار اندرون ملک مسائل کے حل کیلئے دیا ہے، نہ کہ بیرونی تفریح کیلئے۔ اگر نریندر مودی دیگر ممالک سے تعلقات بہتر بنانے سے زیادہ اپنے عوام کا دُکھ درد جاننے کی کوشش کرتے تو کم از کم انتخابی وعدوں کی تکمیل ہوجاتی۔ مودی کے ان دوروں پر 1,000 کروڑ روپئے سے زائد کا خرچ آیا اور یہی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاسکتی تھی۔ بیرونی سربراہان بھی یہ سوچتے ہوں گے کہ مودی کو آخر اتنی فرصت کہاں سے مل جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی سواری تیار رکھتے ہیں۔ نریندر مودی تمام مسائل حل کرکے فارغ ہوچکے ہیں یا پھر سلگتے مسائل کا سامنا کرنے سے بچنے کیلئے تفریح پر نکل جاتے ہیں۔ اس کی حقیقت سے عوام بخوبی واقف ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں شاید ہی کوئی موقع ایسا آیا ہو جب وزیراعظم نے کسی عوامی مسئلہ پر اپنے بیرونی دورہ ملتوی کیا ہو۔ کشمیر کے حالات دھماکو ہیں اور عوام کو عملاً قید کردیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کا کوئی تصور باقی نہیں رہا، لیکن نریندر مودی تین ممالک فرانس، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے دورہ پر ہیں۔ ایک طرف کشمیر کے نازک حالات تو دوسری طرف کئی ریاستوں میں بارش اور سیلاب کی تباہ کاریاں و ہلاکتیں تیسری طرف ملک کی ابتر معاشی صورتحال۔ باوجود اس کہ بیرونی دورہ حیدرآباد میں مشہور کہاوت ’’گاؤں جلے ہنومان باہر‘‘ کے مترادف ہے۔ گزشتہ دِنوں مودی نے بھوٹان کا دورہ کیا۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ 2014ء میں وزیراعظم کی حیثیت سے مودی کا پہلا بیرونی دورہ بھوٹان تھا۔ مودی کیلئے بھوٹان شاید اچھا شگون ہے اور یہاں سے آغاز کے بعد کم از کم 50 ممالک کے بعد ہی سواری کو بریک لگتا ہے۔ فرانس، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے دورہ کا مقصد کشمیر مسئلہ پر ان کی تائید حاصل کرنا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں مودی کو مملکت کے اعلیٰ ترین سیویلین اعزاز سے نوازا گیا۔ مودی بحرین کا دورہ کرنے والے پہلے وزیراعظم ہیں جہاں وہ ایک مندر کی تزئین نو کے کام کا افتتاح کریں گے۔ پہلی میعاد میں مودی نے امارات میں مندر کا افتتاح کیا تھا۔ افسوس ہوتا ہے کہ ان مسلم اور عرب مملکتوں پر جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے کسی بھی مسئلہ پر آواز نہیں اُٹھائی لیکن مشرکانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ عرب ممالک ایسی حکومت کے سربراہ کا سرخ قالین استقبال اور آؤ بھگت کررہے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو ختم کرتے ہوئے مرکزی زیرانتظام علاقہ بنا دیا۔ ہندوستانیوں کو روزگار اور ملک کو بیرونی زرمبادلہ پر مودی کو احسان مند ہونا چاہئے لیکن یہاں تو مشرکانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ وزیراعظم کو بیرونی دورہ کا اختیار حاصل ہے اور اس حق کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ ہم کو بھی بیرونی دورہ کے شوق پر اعتراض نہیں۔ وزیراعظم اپنے شوق کی تکمیل شوق سے کریں لیکن کاش بیرونی دورہ سے قبل ملک کے اٹوٹ حصہ اور جنت ارضی کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے عوام کا حال چال دریافت کرتے تاکہ قوم بھی اطمینان کی سانس لیتی کہ وادی کے حالات واقعی نارمل ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ جنہوں نے پارلیمنٹ میں 370 کی برخاستگی کا بل پیش کیا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس فیصلے سے کشمیری عوام خوش ہیں۔ وہ بھی عوام کی خوشیوں میں شامل ہونے کشمیر جانے کی زحمت نہیں کرسکے۔ حتی کہ 15 اگست کو قومی پرچم لہرانے بھی نہیں گئے حالانکہ خفیہ طور پر تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں۔ وادی کے حالات جب وزیر داخلہ کے دورہ کیلئے سازگار نہیں ہیں تو دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹنے سے کیا حاصل۔ بیرونی دورہ پر روانگی کے دوران نریندر مودی اسی طیارہ سے کشمیر کا فضائی سروے بھی کرتے تو انہیں حالات کا اندازہ ہوجاتا۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے سڑک کے راستے ڈھونڈنے کے بجائے فضائی سروے میں عافیت محسوس کی تھی۔ وزیراعظم اور امیت شاہ نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے شکار ریاستوں کا دورہ تک نہیں کیا، حالانکہ سینکڑوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ملک کی یہ روایت رہی کہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ متاثرہ ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے وزیراعظم ریلیف فنڈ اور آفات سماوی فنڈ سے امداد کا اعلان کرتے۔

کانگریس کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا میں قائد اپوزیشن غلام نبی آزاد کو دوسری مرتبہ اپنے گھر جانے سے روک دیا گیا۔ غلام نبی آزاد جن کا تعلق کشمیر سے ہے، انہوں نے دو مرتبہ کشمیر جانے کی کوشش کی لیکن انہیں ایرپورٹ سے دہلی واپس کردیا گیا ہے۔ دفعہ 370 کی تنسیخ کو 20 دن سے زائد ہوگئے لیکن آج تک وادی کے حالات بدستور دھماکو بنے ہوئے ہیں۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے قائد کو عوام کے درمیان جانے سے روکنا اس بات کی دلیل ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں اور حکومت حقائق کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ جب تک غلام نبی آزاد آزادی کے ساتھ وادی میں قدم نہیں رکھیں گے، اس وقت تک حالات کو نارمل نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی قوم، حکومت کے دعوؤں پر بھروسہ کرے گی۔ غلام نبی آزاد کشمیر کی صورتحال جانچنے کا پیمانہ بن چکے ہیں۔ کانگریس قائد کے نام میں والدین نے لفظ ’’آزاد‘‘ کا اضافہ شاید اسی اندیشہ کے تحت کیا تھا کہ ایک نہ ایک دن ان کے بچے کی آزادی سے گھومنے کا حق چھین لیا جائے گا۔ آزاد کو عملاً اپنے گھر سے بے گھر اور اپنے علاقہ سے جلاوطن کردیا گیا لیکن دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کے بارے میں جتنا بھی کہا جائے، کم ہے۔ گورنر جموں و کشمیر نے جذبات میں آکر راہول گاندھی کو طیارہ بھیجنے کا پیشکش کردیا تھا لیکن جیسے ہی راہول گاندھی نے کُل جماعتی قائدین کو وادی میں آزادی سے گھومنے کی اجازت طلب کی، گورنر خاموش ہوگئے۔ ہوسکتا ہے کہ مرکز کی جانب سے ان کی سرزنش کی گئی ہو۔ ویسے بھی گورنر چاہ کر بھی اپوزیشن قائدین کو سرینگر مدعو نہیں کرسکتے تھے کیونکہ صورتحال پر سارا کنٹرول فوج اور امیت شاہ کا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کشمیر کے حالات کو دھماکو قرار دیتے ہوئے دو مرتبہ ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ ہندوستان نے اگرچہ ثالثی کو قبول کرنے سے انکار کیا لیکن صورتحال کے دھماکو ہونے کی تردید نہیں کی۔ موجودہ صورتحال میں ہندوستان پر کشمیر کے حوالے سے بیرونی دباؤ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ وادی کی صورتحال دنیا بھر میں ہندوستان کی امیج کو متاثر کرچکی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور ادارے اپنے اپنے ممالک میں کشمیری عوام کے حق میں آواز بلند کررہے ہیں۔ کشمیر میں خبروں پر مکمل سنسرشپ عائد کردی گئی ہے اور میڈیا پر کنٹرول کا اندازہ 15 اگست کو لندن میں ہندوستانی سفارت خانہ کے روبرو پیش آئے واقعہ سے ہوتا ہے۔ مخالف ہندوستان مظاہرین نے ہندوستان کے تائیدی افراد پر حملہ کرتے ہوئے سفارت خانہ میں جاری یوم آزادی تقریب میں رکاوٹ پیدا کی لیکن چار دن بعد اس واقعہ کا علم عوام کو اس وقت ہوا جب نریندر مودی نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے بیان جاری کیا۔ سنسرشپ کے ذریعہ اصلی صورتحال کو چھپانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں کیونکہ بائیں بازو کی جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کئی علاقوں کے ویڈیوز ملک کے روبرو عام کردیئے۔ کشمیر کا معاملہ مودی حکومت کیلئے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ اگر 370 کی برخاستگی پر برقرار رہتے ہیں تو حالات مزید خراب ہوں گے اور اگر فیصلہ واپس لیا جائے تو منہ کو کالک لگ جائے گی۔ مودی کا ’’گودی میڈیا‘‘ دن رات کشمیر سے متعلق پروپگنڈہ میں مصروف ہے کہ کشمیری عوام کی عام زندگی بحال ہوچکی ہے۔ جب واقعی ایسا ہے تو پھر پابندیوں برخاست کیوں نہیں کی جاتیں۔ عوام کو گھروں سے نکلنے کی اجازت کیوں نہیں ہے۔ انٹرنیٹ، ٹیلیفون اور دیگر مواصلاتی رابطہ کو منقطع کرتے ہوئے کشمیر کو ہندوستان سے الگ تھلگ کردیا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت کو فوج کے مظالم کی تحقیقات کیلئے کمیشن کے قیام کا چیلنج کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کشمیر میں فوج کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے اور ان کی کسی بھی کارروائی پر کوئی بازپرس یا وضاحت طلب نہیں کی جائے گی۔ ظاہر ہے جب عصری ہتھیار رکھنے والے فوجیوں کا سامنا نہتے احتجاجیوں سے ہوگا تو فوج لاٹھیوں نہیں بلکہ گولی سے جواب دے گی۔ جب تک کُل جماعتی قائدین، انسانی حقوق کے ادارے اور آزادانہ تنظیموں کے نمائندے اور صحافی وادی کا دورہ نہیں کریں گے، اُس وقت تک مودی حکومت کے پروپگنڈہ کو عوام قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی قبول کرنا چاہئے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق کشمیر کی سنگین صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے سابق وزیر فینانس پی چدمبرم کو گرفتار کیا گیا حالانکہ ان کے خلاف یہ پرانا معاملہ ہے ۔ جس ڈرامائی انداز میں گرفتاری ہوئی ہے، وہ عوام کی توجہ بانٹنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہندی کے مشہور شاعر گوپال داس نیرج نے کیا خوب کہا ہے :
کبھی بھی وقت نے اُن کو نہیں معاف کیا
جنہوں نے دُکھیوں کے اَشکوں سے دِلگی کی ہے