کرناٹک ماڈل کودوسری ریاستوں میں بھی اپنا نے کانگریس کا منصوبہ

   

نئی دہلی : کیا کانگریس نے کرناٹک اسمبلی الیکشن میں جیت کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی سے سیدھے ٹکرانے اور اسے ہرانے کی دوا ڈھونڈھ لی ہے؟ ایسا نتیجہ نکالنا ابھی جلد بازی ہوگی، لیکن مقامی مسائل، قائدین اور اسکیموں پر مرکوز کرتے ہوئے اس نے جو نتائج کرناٹک میں حاصل کیے ہیں، اسے ہماچل پردیش میںملی جیت کی بڑی شکل کہا جارہا ہے۔یہی نہیں بلکہ آنے والے مہینوں میں تین دیگر بڑی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور 2024 کے عام انتخابات میں بھی یہی حکمت عملی کو کانگریس دوہرا سکتی ہے۔ اس کا تجزیہ اس لحاظ سے دلچسپ ہو سکتا ہے کہ کانگریس کو اس جیت سے کیا حاصل ہوا، اس کے اثرات کیا ہوں گے۔کانگریس 2019 عام انتخابات کے بعد سے ہماچل پردیش کو چھوڑ کر سبھی اسمبلی انتخابات ہاری چکی ہے۔ بی جے پی کے سامنے ہر الیکشن میں اس کی ہار یقینی ماننے کا ٹرینڈ بنتا دکھائی دے رہا تھا۔کرناٹک کی جیت نے کانگریس کو راجستھان، مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ کے آئندہ اسمبلی انتخابات کیلئے اعتماد بھردیا ہے۔ حالانکہ گزشتہ مرتبہ انہیں تین ریاستوں میں جیت کے بعد کانگریس 2019 لوک سبھا انتخابات ہار گئی تھی۔ کانگریس کو یہ یاد رکھنا ہوگا۔ہماچل میں کانگریس نے پرانی پنشن اسکیم واپس لانے، خواتین کو 1500 روپے اور ایک لاکھ روزگار جیسے وعدے کیے تھے۔ کرناٹک میں بھی ایسے وعدے کیے گئے۔ پارٹی کو یقین ہیکہ پی ایم مودی کی قیادت والی بی جے پی کا کامیابی کا سفر روکنے کیلئے یہ پالیسی کارگر ہوگی۔کرناٹک جیت کا کریڈیٹ کانگریس صدر ملک ارجن کھرگے کو دیا جاسکتا ہے۔
ان کی قیادت میں کانگریس بی جے پی صدر جے پی نڈا کے آبائی ریاست ہماچل پردیش میں جیت درج کرچکی ہے۔
حالانکہ گجرات، تریپورہ، میگھالیہ اور ناگالینڈ میں ہار سے انہیں کمزور مانا جانے لگا تھا۔ دلت ووٹوں کو بھی کانگریس کی جیت میں اہم مانا جارہا ہے۔