کشمیری نوجوان ہتھیار اُٹھانے کیلئے تیار

   

انیس زرگر
جموں و کشمیر کے سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ نے یہ کہہ کر سیاسی حلقوں میں بے چینی پھیلادی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت حکومت کی غلط حکمرانی کے نتیجہ میں کشمیری نوجوان خود کو بیگانہ محسوس کرنے لگے ہیں اور وہ ہتھیار اُٹھانے کیلئے تیار ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈر نے یہ کہتے ہوئے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ پچھلے برسوں میں جو علاقے عسکریت پسندی سے پاک تھے، اب ان علاقوں میں انتہا پسندی میں اضافہ دیکھا گیا ہے حالانکہ حکومت نے انتہا پسندی کے خاتمہ کا وعدہ کیا تھا۔ عمر عبداللہ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ریاست میں باہر سے انتہا پسند دراندازی نہیں کررہے ہیں بلکہ مقامی نوجوان ہتھیار اٹھا رہے ہیں اور وہ انتہا پسند تنظیموں میں شمولیت کیلئے تیار ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں غصہ اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔ عمر عبداللہ وادیٔ چناب کے علاقہ ڈوڈا میں ایک جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے جہاں وہ اپنے سینئر پارٹی قائدین کے ہمراہ 8 روزہ دورہ پر آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ پارٹی جنرل سیکریٹری علی محمد صالح، سجاد کچلو اور تنویر صادق بھی تھے۔ 5 اگست 2019ء کو مودی حکومت نے کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والے دستوری آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا تھا، اس کے بعد سے عمر عبداللہ کی کا رمبن، ڈوڈا، کشٹوار اضلاع کے عوام تک پہلی رسائی تھی۔ قبل ازیں اپنے دورہ میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے حیدرپورہ پولیس کارروائی میں مارے گئے تین مہلوکین میں سے ایک عامر ماگرے کے گھر کا دورہ کرتے ہوئے غم زدہ ارکان سے ملاقات کی۔ عامر کو جموں و کشمیر پولیس نے ایک انتہا پسند قرار دیا جبکہ عوام نے پولیس کے دعوے کو مسترد کردیا، عوام کا کہنا تھا کہ پولیس نے حیدر پورہ میں جن تین لوگوں کو مار گرایا وہ کوئی انتہا پسند نہیں تھے، بلکہ کشمیری شہری تھے۔
عمر عبداللہ نے جلسہ عام سے خطاب کے دوران یہ یاد دلایا کہ جب وہ سابق ریاست جموں و کشمیر کے چیف منسٹر تھے، تب انہوں نے سرینگر شہر میں تقریباً فوجی بنکرس کو ہٹا دیا تھا لیکن اب وہاں وہی بنکرس واپس آچکے ہیں اور سرینگر میں جابجا ان بنکرس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ عمر عبداللہ کے مطابق وہ اور ان کی حکومت ایک ایسی صورتحال کے بارے میں مکمل اعتماد حاصل کرچکے تھے، جہاں فوج کو دیئے گئے خصوصی موقف سے متعلق قانون افسپا (آرمڈ فورسیس اسپیشل پاورس ایکٹ) کو ان علاقوں سے ہٹانے پر بات چیت ہورہی تھی۔ ان علاقوں میں ہماری حکومت میں انتہا پسندی کی کوئی علامت نہیں تھی، لیکن آج سرینگر کا کوئی ایسا حصہ نہیں جہاں لوگ خود کو محفوظ محسوس کررہے ہوں۔ مابقی وادی میں حالات مزید ابتر ہیں۔ واضح رہے کہ سیاسی ماہرین کے خیال میں سال 2022ء میں اسمبلی انتخابات ہوں گے اور عمر عبداللہ کا دورہ وادیٔ چناب اسی کی ایک کڑی سمجھی جارہی ہے۔ ان کے دورہ کو سیاسی پنڈت اہم سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں کے ایک حصے کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ عمر عبداللہ نے وادی میں انتہا پسندی سے متعلق ایسے وقت ریمارکس کئے ہیں جبکہ کشمیر میں انتہا پسندی سے متعلق واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اکٹوبر سے اب تک وہاں قتل کے 50 واقعات پیش آچکے ہیں۔ مرنے والوں میں 15 عام شہری بھی شامل ہیں۔ جموں و کشمیر میں صورتحال مسلسل تناؤ سے پُر ہے، وہاں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ حکام نے پُرتشدد واقعات پر قابو پانے اقدامات کرنے شروع کردیئے ہیں، تاہم صیانتی انتظامات میں سختی کے ساتھ ہی مقامی لوگوں میں خوف اور بے یقینی کی کیفیت بھی بڑھ گئی ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ حد سے زیادہ طاقت کے استعمال اور لوگوں کی من مانی گرفتاریوں کو حکام نے روز کا معمول بنا لیا ہے۔ یہ دراصل حقیقی ناراضگی کو دبانے کی ایک کوشش ہے۔ عمر عبداللہ نے یہ کہہ کر حکام کی تشویش میں اضافہ کردیا کہ شمالی کشمیر میں کپواڑہ سے لے کر جنوبی کشمیر میں جواہر سرنگ تک تمام علاقوں میں انتہا پسندی کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں سرینگر میں ایک انتہا پسند کو مارا گیا، اس کے بارے میں یہ پتہ چلا ہے کہ اس نے 2019ء کے بعد انتہاپسند تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ عمر عبداللہ کے مطابق انہیں بتایا گیا کہ اس نوجوان نے 5 اگست 2019ء کو مودی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی سے متعلق فیصلہ کے بعد ہی انتہا پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔ عمر عبداللہ یہ بھی مانتے ہیں کہ بی جے پی حکومت ہر مسئلہ پر جھوٹ بول رہی ہے۔ مثال کے طور پر حکومت نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیری نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن حکومت کا یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا۔ حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ امبانی ، ٹاٹا اور برلا جموں و کشمیر میں سرمایہ مشغول کریں گے جس سے روزگار کے ڈھیر سارے مواقع پیدا ہوں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ حد تو یہ ہے کہ کشمیری مقامی جوانوں کو وادی میں جاری پراجیکٹس میں بھی کام نہیں مل پایا ۔