کورونا مریضوں کو ذہنی عوارض سے بچانے کونسلنگ کی ضرورت

   

ڈاکٹرس سے ذہن سازی پر حوصلوں میں اضافہ ممکن ، ڈاکٹر پی رنگانادھم
حیدرآباد۔12 جنوری (سیاست نیوز) ۔ کورونا وائر س کے مریضوںکو ذہنی عوارض میں مبتلاء ہونے سے بچانے کے لئے ڈاکٹرس کو مریض کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کی کونسلنگ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بیشتر مریض جو کورونا وائرس سے دوسری یا تیسری مرتبہ متاثر ہورہے ہیں ان میں بیماری سے زیادہ خوف پایا جانے لگا ہے اور اس خوف کو نکالنے کے لئے ڈاکٹرس ان کی ذہن سازی کے ذریعہ انہیںحوصلہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر پی رنگانادھم نے اومی کرون کے متعلق پائے جانے والے خدشات اور مریضوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی منفی سوچ کو دور کرنے کی ضرورت کے متعلق یہ بات کہی۔انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کی نئی قسم میں موجود متعدی صلاحیت اضافی ضرور ہے لیکن اس کے متعلق خوفزدہ ہونے کے بجائے اس سے محفوظ رہنے کی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ڈاکٹر پی رنگانادھم نے ملک بھر کے علاوہ ریاست تلنگانہ میں پائے جانے والے مریضوں کی تعداد اور صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسری لہر کے دوران جوحالات پیدا ہوئے تھے ان کا خوف لوگوں کے ذہنوں پر ہے اور ان حالات سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ذہنوں سے خوف کو دور کرتے ہوئے علاج کو یقینی بنایا جائے۔انہو ںنے بتایا کہ وائرس کے اثرات میں کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن اس کے متعدی ہونے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے تیزی سے پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے اسی لئے احتیاطی اقدامات کے ساتھ ماسک کے استعمال اور سماجی فاصلہ کی برقراری کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر پی رنگانادھم نے بتایا کہ اومی کرون کے مریضوں میں زیادہ سے زیادہ 3.4 فیصد شریک دواخانہ ہوسکتے ہیں جبکہ کم از کم 1.2 فیصد کو شریک دواخانہ کرنے کی نوبت آسکتی ہے لیکن ڈیلٹا کے دور میں 40 فیصد مریضوں کو شریک دواخانہ کرنا پڑرہا تھا ۔انہو ںنے بتایا کہ دوسری لہر کے بعد ریاستی ومرکزی حکومت کی جانب سے جس انداز سے تیاریاں اور چوکسی اختیار کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے وہ کہنے کے موقف میں ہیں اگر تیسری لہر میں شدت ریکارڈ کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں حکومت کی جانب سے کنٹرول کے کرنے کے اقدامات بھی بہتر ہوں گے اور عوام کو پریشان ہونا نہیں پڑیگا۔ م