کیا 2024 ء میں مودی کی ہیٹ ٹرک ہوگی؟

   

راج دیپ سردیسائی
آیا 2024ء کے عام انتخابات کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں یا اس کے لئے میدان تیار ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جو ملک میں یک جماعتی انتخابی جمہوریت کی جانب بڑھتے قدم کے اشارے دیتا ہے، لیکن حالیہ عرصہ کے دوران ملک میں جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں، اور ان تبدیلیوں نے یہ واضح کیا کہ Modi-Fied (مودی کے ذریعہ بدلی ہوئی بھارتیہ جنتا پارٹی) مسلسل سرگرم ہے اور اقتدار حاصل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ چاہے وہ بعض لوک سبھا نشستوں کے ضمنی انتخابات ہو یا راجیہ سبھا نشستوں پر اپنے امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنانا یا پھر اسمبلی انتخابات کا معاملہ کیوں نہ ہو، حد تو یہ ہے کہ بلدی انتخابات میں بھی بی جے پی سخت محنت کررہی ہے (اور اس کی محنت میں کیا عوامل شامل ہوتے ہیں یہ تو سب ہی جانتے ہیں)۔ دوسری طرف اپوزیشن ہنوز بے ترتیب پڑی ہوئی ہے۔ اسے شکست پر شکست ہوتی جارہی ہے اور منقسم اپوزیشن کا بی جے پی بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ بی جے پی 2024ء کے عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس کا مقصد ہر حال میں ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔ حال ہی میں سیاسی لحاظ سے اہم ترین ریاست مہاراشٹرا میں اپوزیشن کی مخلوط حکومت کا گرایا جانا، بی جے پی کی 2024ء عام انتخابات کیلئے تیاریوں کی تازہ مثال ہے۔ اس ریاست سے اپوزیشن کو شاید امید تھی کہ وہ 2024ء کے چیلنج سے بہتر انداز میں نمٹ سکے گی۔ اندرون پارٹی اقتدار کی جدوجہد شیوسینا جیسی پارٹی میں کبھی ہوگی، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ شیوسینا کو تنظیمی لحاظ سے ایک مضبوط ترین سیاسی جماعت کی حیثیت حاصل تھی لیکن دہلی میں بی جے پی قیادت نے بغاوت کا لائحہ عمل طئے کیا اور ریاستی سطح پر اس پر عمل آوری کی گئی۔ شاید ادھو ٹھاکرے اور شیوسینا کے دوسرے اہم قائدین کو بھی اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا ہوگا کہ پارٹی میں بغاوت ہوگی اور پارٹی مہاراشٹرا میں اقتدار سے محروم ہوجائے گی۔ مہاراشٹرا جیسی ریاست میں اقتدار پر اپنی گرفت پوری طرح مضبوط کرنے کی خاطر بی جے پی نے کسی چیز کا خیال نہیں کیا۔ خاص طور پر شیوسینا کے سربراہ اور چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے سے بدترین بے مروتی کا مظاہرہ کیا۔ اقتدار حاصل کرنے ریاست کی طاقت کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ جانبدارانہ مرکزی ایجنسیوں سے لے کر خاص طور پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ سے لے کر گجرات اور آسام کی مقامی پولیس اور پھر ممبئی میں بی جے پی کے تئیں نرم رویہ رکھنے والے راج بھون تک ایسی خدمات انجام دیں کہ اپوزیشن کی زیراقتدار ہر ریاست پریشان ہوگئی اور ان ریاستوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہوگیا اور ہر کوئی سوچنے لگا کہ کہیں مہاراشٹرا کی طرح اُن کی ریاست کا بھی وہی حال کردیا جائے۔ اپوزیشن زیراقتدار ریاستیں فی الوقت پریشان ہیں، انہیں مہاراشٹرا میں اپوزیشن اقتدار کو زوال سے دوچار کئے جانے کے بعد اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے کہ بی جے پی حالات کو زور زبردستی یا پھر ترغیب کے ذریعہ (محبت یا نفرت) کے ذریعہ اپنے حق میں تبدیل کرسکتی ہے۔ موجودہ حالات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کا اگلا نشانہ جھارکھنڈ ہوسکتا ہے۔
حسن اتفاق سے اس ہفتہ میں جب اُدھو ٹھاکرے حکومت اپنے آخری مراحل سے گذر رہی تھی۔ بی جے پی نے اپنی قومی مجلس عاملہ کا اجلاس حیدرآباد (تلنگانہ) میں منعقد کیا۔ تلنگانہ میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ تلنگانہ بھی بی جے پی راڈار پر ہے۔ بی جے پی قائدین نے چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ اور ان کے ارکان خاندان کو شدید تنقیدوں کا نشانہ بنارہے ہیں اور ہر بیان میں تلنگانہ میں کے سی آر کی خاندانی سیاست کے حوالے دیئے جارہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مہاراشٹرا میں بھی خاندانی سیاست کا ہوّا کھڑا کیا گیا اور بتایا گیا کہ شیوسینا میں قائدین ، موروثی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی نے ادھو ٹھاکرے کے خلاف ان کی ہی پارٹی کے ایک Gross Root لیڈر کو سامنے لایا جس نے اس طرح بغاوت کی کہ اُدھو اور دوسرے شیوسینکوں کو پتہ ہی نہ چل سکا (مہاراشٹرا کی انٹلیجنس ایجنسیوں نے بھی بالکل خاموشی اختیار کی)۔ اگرچہ بی جے پی کو راتوں رات اپنی کوششوں کا انعام نہیں مل سکتا، اس کے باوجود اس نے ہندی پٹی (ہندی بولنے والی ریاستوں) میں غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں، اب وہ جنوبی ہند کو اپنی ترقی کا سب سے بڑا علاقہ بنانے کی خواہاں ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ راجیہ سبھا کیلئے جو تمام چار نامزدگیاں کی گئیں، وہ شمالی ہند سے نہیں بلکہ جنوبی ہند سے ہے اور بی جے پی نے یوں ہی جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والی چار شخصیتوں کو ایوان بالا کیلئے نامزد نہیں کیا بلکہ سوچ سمجھ کر کیا گیا یہ اقدام ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی ہند کی پانچ ریاستوں میں پارلیمنٹ کی 129 نشستیں ہیں جن میں سے بی جے پی کو صرف 29 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ کرناٹک سے اس نے 25 پارلیمانی نشستوں پر قبضہ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیگر چار جنوبی ریاستوں سے اسے صرف چار پارلیمانی نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ بی جے پی نہ صرف جغرافیائی توسیع چاہتی ہے بلکہ وہ اپنی سماجی بنیاد بھی گہری کرتی جارہی ہے۔ اوڈیشہ سے تعلق رکھنے والی ایک قبائیلی خاتون دروپدی مرمو کو عہدہ صدارت کیلئے اپنا امیدوار بنانا دراصل غریب، دیگر پسماندہ طبقات درج فہرست طبقات و قبائل کو اپنا ہمدرد اور حامی بنانا کے مقصد سے کیا گیا اقدام ہے کیونکہ بی جے پی کے بارے میں اب تک یہی کہا گیا ہے کہ یہ ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں بشمول برہمنوں اور بنیوں کی پارٹی ہے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بی جے پی نے اترپردیش میں رامپور اور اعظم گڑھ لوک سبھا حلقوں کے ضمنی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی حالانکہ ان دونوں حلقوں میں مسلم رائے دہندوں کی کافی تعداد پائی جاتی ہے اور روایتی طور پر ان حلقوں سے ہمیشہ اپوزیشن امیدوار کامیاب ہوتے رہے جبکہ یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بی جے پی نے قابل لحاظ تعداد میں مسلم ووٹ حاصل کئے۔ ایسا دعویٰ حالات کو صرف بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے سواء کچھ نہیں۔ ان حلقوں میں کامیابی سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش میں بی جے پی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے (یہ اور بات ہے کہ رام پور اور اعظم گڑھ میں مسلم رائے دہندوں کو گھروں سے نکلنے ہی نہیں دیا گیا۔ اعظم خاں جیسے قائدین نے یہ الزامات عائد کئے)
آج بی جے پی مشن 2024ء کی تیاری میں مصروف ہے اور اپوزیشن جماعتیں خود کو متحد کرنے میں بالکلیہ طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔ صدرجمہوریہ کا انتخاب اپوزیشن اتحاد کا بہترین موقع تھا لیکن شاید اس موقع کا فائدہ اُٹھانے میں بھی اپوزیشن پوری طرح ناکام ہوگئی، اس کیلئے اپوزیشن میں داخلی خلفشار پایا جاتا ہے جس وقت ممتا بنرجی نے صدرجمہوریہ کیلئے ایک متحدہ مضبوط امیدوار میدان میں اُتارنے کیلئے اجلاس طلب کیا، کچھ کلیدی جماعتوں نے شرکت سے گریز کیا، ہوسکتا ہے کہ بی جے پی امیدوار کے خلاف ایک مضبوط اپوزیشن امیدوار میدان میں اُتارا جاتا۔ بہرحال 79 سالہ یشونت سنہا چوتھی پسند کے طور پر سامنے آئے۔ اب بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ کانگریس 2024ء کی انتخابی جنگ کیلئے تیار ہے۔ باالفاظ دیگر کانگریس ایک ایسے جہاز کی طرح ہوگئی ہے جو ایک کٹے ہوئے سمندر میں بناء کپتان کے تھپیڑے کھا رہی ہے۔ بہرحال اب یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ آیا 2024ء میں نریندر مودی کی ہیٹ ٹرک ہوگی؟ 20 ماہ سیاست میں ایک طویل مدت ہوتی ہے، لیکن یہ دیکھنا مشکل ہے کہ سیاسی شعبہ میں کب کیا تبدیلیاں رونما ہوں۔ ایک بات ضرور ہے۔ کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتوں پر بی جے پی کو ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے۔ بی جے پی کو تمام وسائل تک رسائی حاصل ہے۔ اس کے پاس میڈیا اور ادارہ جاتی اختیارات ہیں۔ اس طرح اقتدار تک اس کی آسان رسائی ہوسکتی ہے، تاہم ایک قابل اپوزیشن قیادت اس کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں بھی کھڑی کرسکتی ہے۔ ملک میں یک جماعتی نظام ایک خطرناک رجحان ہوسکتا ہے اور جمہوریت پر اس کے گہرے رجعت پسندانہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک قوم، ایک لیڈر، ایک تصویر کا رجحان خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اب گوا بی جے پی کے نشانہ پر ہے۔ وہ گوا جیسی چھوٹی ریاست کو بھی اپوزیشن سے پاک بنانا چاہتی ہے۔ کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی نے گوا میں اس کے ارکان اسمبلی کو وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے فی کس 40 کروڑ روپئے کی پیشکش کی ہے۔