کیرالا میں سلسلہ وار دھماکے

   

دل دہل جاتا ہے سن کر آج کل کے حادثات
کتنی پیاری تھی ہماری پہلی تہذیب کہن
جنوبی ہند کی تعلیم یافتہ ریاست کیرالا میں ایک دعائیہ اجتماع کے مقام پر آج صبح سلسلہ وار دھماکے ہوئے ۔ ایک شخص کی ان دھماکوں میں موت ہوگئی جبکہ کچھ اور زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ دھماکے اتوار کو عیسائی برادری کے دعائیہ اجتماع کے مقام پر ہوئے ہیں۔ اتوار کو عیسائی برادری اپنی عبادتگاہوں کا رخ کرتی ہے اور دعائیہ اجتماعات میںحصہ لیتی ہے ۔ ایسے میں انہیں نشانہ بناتے ہوئے یہ دھماکہ کیا گیا ہے ۔ حالانکہ زیادہ بڑا جانی نقصان نہیں ہوا ہے لیکن دعائیہ اجتماع کے مقام کو اس طرح کے حملوں کا نشانہ بنانا انتہائی قابل مذمت فعل ہے اور ایسی حرکتوں کی کسی بھی حال میں کسی بھی قیمت پر اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ کیرالا کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ریاست میں عیسائی برادری کی خاطر خواہ تعداد رہتی بستی ہے ۔ کیرالا میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول بھی مستحکم ہے ۔ لوگ یہاں اپنی تعلیم اور کام کاروبار سے جڑے رہتے ہیں۔ فرقہ وارانہ ذہنیت اور سوچ سے یہاں کے عوام کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ آج جو بم حملے ہوئے ہیں وہ فرقہ وارانہ نوعیت کے نہیں ہیں کیونکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک شخص نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود کو قانون کے حوالے بھی کردیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ شخص بھی عیسائی ہے اور اسی طبقہ سے تعلق رکھتا ہے جس فرقہ کا یہاںدعائیہ اجتماع ہو رہا تھا ۔ حالانکہ اس حملے کی وجوہات اور اس کے محرکات کا پتہ نہیںچل سکا ہے لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے حملوں سے ریاست کے ماحول کو خراب کیا جاسکتا ہے ۔ عوام میںڈر و خوف کی فضاء پیدا کی جاسکتی ہے اورا س کے ذریعہ بعض مفادات حاصلہ کی جانب سے حالات کے استحصال سے بھی گریز نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے میں ان حملوں کی جامع اور مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں اور اس کے محرکات اور پس پردہ عزائم و مقاصد کا پتہ چلاتے ہوئے ان کی سرکوبی کی جانی چاہئے ۔ انسانی جانوں کے اتلاف اور مذہبی مقامات اور دعائیہ اجتماعات کو نشانہ بنانے کا موقع کسی کو بھی نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی ایسی حرکتوں کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ۔
یہ حملہ کسی نے بھی کیا ہو اور اس کے محرکات چاہے کچھ بھی رہے ہوں لیکن ایسی حرکتوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس طرح کے واقعات سے اگر فوری اور سختی سے نہ نمٹا جائے تو پھر حالات کو بگاڑنے کیلئے مفادات حاصلہ سرگرم ہوسکتے ہیں۔ کیرالا کے جو سماجی اور سیاسی حالات ہیں ان میں کچھ گوشے اپنی جگہ بنانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں یہ موقع نہیں مل رہا ہے اور نہ ہی ریاست کے عوام اس کو برداشت کرنے تیار ہیں۔ ایسے میں اگر مذہبی مقامات اور اجتماعات کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کے ذریعہ مذہبی جذبات بھڑک سکتے ہیں اور پھر ایک سلسلہ سا شروع ہوسکتا ہے جو نہ ریاست کیرالا کیلئے اچھی علامت ہوگا اور نہ ہی ہمارے ملک کیلئے یہ اچھی بات ہوگی ۔ ابھی سے یہ کوششیں شروع ہوگئی ہیں کہ صورتحال کا استحصال کیا جائے ۔ ایک مرکزی وزیر نے یہ بیان دیدیا ہے کہ اس کیلئے ریاستی حکومت ذمہ دار ہے کیونکہ اس نے حماس کی تائید میں مظاہرہ یا بیازیوں کی تائید کی تھی ۔ یہ ایک منفی سوچ ہے کیونکہ جو حملہ ہوا ہے وہ نہ کسی مسلمان نے کیا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے نے کیا ہے ۔ عیسائیوں کا اجتماع تھا اور جو شخص اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود کو قانون کے حوالے کرچکا ہے وہ بھی خود عیسائی ہے ۔ ایسے ؎میں سیاسی فائدہ اٹھانے کے مقصد سے حماس اور بالواسطہ طور پر مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں جو قابل مذمت ہے ۔ اس کے علاوہ جس وقت یہ کوشش ہو رہی ہے وہ بھی قابل مذمت ہے ۔ یہ وقت سیاست کرنے کا ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو ایسے حساس نوعیت کے مسائل پر سیاست کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے ۔ اگر کوئی ایسی کوشش کرتا ہے تو اسے ناکام بنانا چاہئے ۔
نہ صرف کیرالا بلکہ سارے ہندوستان میں کسی بھی شہر اور کسی بھی ریاست میں اگر اس طرح کی کارروائی ہوتی ہے تو وہ قابل مذمت ہے ۔ ایسی حرکتوں کا نہ کوئی جواز ہوسکتا ہے اور نہ ہی ایسی حرکتوں پر کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے ۔ ملک میں نظم و قانون اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقراررکھنے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ایسی صورتحال میں کسی کو سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ہر گوشے کو ایسی حرکتوں کی مذمت کرنی چاہئے اور ایسی حرکتیں کرنے والوںکوکیفر کردار تک پہونچانے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی جانی چاہئے تاکہ کہیں بھی اس طرح کے واقعات کا اعادہ ہونے نہ پائے ۔