کینیڈا میں آندھی کا آنکھوں دیکھا حال

   

محمد صبغۃ اللہ شاہد

23 جولائی 2018ء کو معہ اہلیہ کینیڈا جانے کا موقع ملا۔ دو مہینے تو یوں ہی اپنے جگر کے ٹکڑوں کے ساتھ گھومنے پھرنے میں گزر گئے۔ پھر آئی 22 سپٹمبر 2018ء کی تاریخ۔ یہ تاریخ کینیڈا میں اور خاص طور پر اوٹاوا (Ottawa) شہر (جہا ہمارا قیام تھا) میں ہیمشہ یاد رکھی جائے گی۔ ہوا یوں کہ 22 سپٹمبر کو صبح سے ہی اوٹاوا شہر کے لاکھوں شہریوں کو فون پر پیغامات ا ٓنے شروع ہوگئے کہ آج شام آندھی (Tornedo) آنے والی ہے لیکن شہریوں نے اس بات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور خیال کیا کہ یہ تو ایک معمول کا حصہ ہے ہم نے بچپن میں ایک چرواہے کا قصہ سنا تھا کہ وہ لوگوں کو پکار پکار کر جمع کرتا کہ بھیڑیاآیا مدد کے لیے دوڑے چلے آئو جب لوگ اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں وغیرہ لے کر آتے تو یہ خوب ہنستا اور لوگ واپس چلے جاتے لیکن جب ایک دن حقیقت میں بھیڑیا آیا تو لوگ اس کی مدد کے لیے نہیں آئے اور بھیڑیا چرواہے کو اور تمام بکریوں کو کھاگیا۔ ایسا ہی حال اوٹاوا شہر میں بھی ہوا۔ حکومت ا ٓگاہ کرتی رہی لیکن لوگ اسے معمول کی وارننگ سمجھ کر ٹالتے رہے بالآخر شام 5 بجے اوٹا وا کے لاکھوں شہریوں کو ایک عجیب وغریب قسم کی آواز کا سائرن فونوں پر سنائی دینے لگا جب پیغام پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ آج آندھی Tornedo آکر ہی رہے گی چنانچہ لوگوں میں بھاگ دوڑ شروع ہوگئی لیکن بے اثر جیسا کہ انگریزی میں محاورہ ہے کہ Time and Tide waits for none۔
لیجئے جناب لوگ ابھی سنبھلنے میں ہی تھے کہ آندھی نے اپنی آب و تاب کے ساتھ اوٹاوا شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لی۔ میں معمول کے مطابق مسجد جامع عمرؓ پہنچ گیا تھا مغرب کی نماز میں صرف 4 یا 5 لوگ ہی آسکے اور نماز کے درمیان میں کرنٹ آف ہوگیا۔ کینیڈا میں کرنٹ آف ہونے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پھر کیا تھا اندھیرا ہی اندھیرا لوگوں نے اپنے موبائیل فون سے ٹارچ کا کام لینا شروع کردیا لیکن تھوڑی ہی دیر میں تمام فونس بند ہوگئے میری بیٹی روز کی طرح کار لے کر مسجد آگئی داماد صاحب بھی ساتھ تھے۔ بچے بھی ساتھ تھے اور ہم لوگ ڈنر کی تلاش میں شہر کا چپہ چپہ چھان مارا بڑی مشکل سے ایک جگہ روٹی ملی۔ ہر مال پر ہر دکان پر لوگوں کا سیلاب امڈ آیا لیکن کسی کو بسکٹ کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ملا۔ انسان کی بے بسی دیکھنے کے قابل تھی سامنے شوکیس میں ہر قسم کی غذا موجود ہے لیکن ہاتھ نہیں لگ رہے ہیں وجہ تھی Plastic Cards۔ کینیڈا کے لوگ اپنے گھر میں یا اپنے جیب میں ایک ڈالر بھی نہیں رکھتے ہر کوئی Credit Card یا Debit Card کا عادی ہے اور الکٹریسٹی بند ہونے کی وجہ سے تمام مشینیں ناکارہ ہوگئیں۔ پٹرول پمپس پر پٹرول رکھا ہوا ہے لیکن کرنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ایک قطرہ نہیں لے سکتے گویا کہ ’’سمندر میں رہ کر بھی پیاسے‘‘ گھروں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے چولہے نہیں سلگ رہے ہیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے میری فطرت میں چونکہ حیدرآبادی پن ہے میں کینیڈا پہنچتے ہی ٹارچ لائٹ خریدا تھا میری خریدی ہوئی ٹارچ لائٹ رات کے دو بجے تک کام آئی۔ بیٹی داماد نواسا، نواسی بیٹا بہو بیوی سب میری دوراندیشی کی تعریف کرنے لگے۔ کینیڈا میں گھروں میں ایمرجنسی لائٹ کوئی نہیں رکھتا گھروں میں ماچس، وغیرہ کچھ نہیں ہوتا کیوں کہ گزشتہ کئی دہوں میں پہلی بار بجلی چلی گئی تھی۔ لیجئے جناب صرف پندرہ منٹ تک آندھی پورے زور و شور سے چلتی رہی اور مجھے عاد و ثمود کے واقعات یاد آئے کہ مسلسل 8 رات اور 7 دن ان پر ہوا کی آندھی مسلط کردی گئی تھی میں بخوبی عاد و ثمود کی حالت کا اندازہ کرسکا۔ ہمارے گھر رات دو بجے بجلی بحال ہوگئی۔ کسی جگہ 24 گھنٹوں بعد، کسی جگہ دو دن کے بعد، کسی جگہ تین دن کے بعد بجلی بحال کردی گئی۔ بجلی فیل ہونے کی اصل وجہ درختوں کا تاروں پر گرنا ہے اور تار ٹوٹنے کی وجہ سے بجلی فیل ہوگئی۔ میں یہاں تعریف کروں گا کینیڈا کے محکمہ برقی Electricity Dept کی جنہوں نے رات دن کام کرکے ایک ایک متاثرہ مقام پر کرنٹ بحال کیا تب کہیں جاکر لوگوں کو کھانے کی اشیاء اور پٹرول دستیاب ہوا۔ آندھی کیا تھی گویا کہ قیامت صغریٰ کا منظر نہ فون کام کررہا ہے نہ گھروں میں روشنی ہے۔ نہ کاروں میں پٹرول ہے نہ اپنے پرائے کی خیر خیریت لے سکتے ہیں۔ گویا کہ صرف پندرہ منٹ کی آندھی میں گویا کینیڈا سینکڑوں سال پیچھے چلاگیا۔ میرا تیسرا لڑکا جو کہ Communications Company میں الیکٹرانک انجینئر ہے ساری رات (ڈیوٹی ختم ہونے کے باوجود) کمپنی میں رکا رہا اور صبح جاکر گھر واپس آیا۔ ان کی کمپنی میں نیا جنریٹر رکھا ہوا ہے جو کہ گزشتہ دس سال سے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوگیا پھر Engineers کی ایک ٹیم نے اپنی اپنی کاروں کی بیٹریوں کو جوڑ کر جنریٹر کو چالو کیا تب کہیں جاکر ان سے ملحق تمام کمپنیوں میں کمپیوٹرز چلنا شروع ہوئے۔ لوگوں کی بے بسی دیکھ کر مجھے بچپن میں سنے ہوئے گانے کے بول یاد آگئے کہ
دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان
کتنا بدل گیا انسان۔ کتنا بدل گیا انسان

اوٹاوا شہر میں Dun Robin نامی علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ سینکڑوں مکانات زمین دوز ہوگئے کئی کاریں درختوں تلے دب گئے۔ کل کے لکھ پتی آج دانے دانے کے محتاج ہوگئے۔ لوگوں کا سب کچھ لٹ گیا۔ صرف 15 منٹ کی آندھی میں۔ صبح ہوئی۔ لوگ مدد کے لیے دوڑ پڑے لیکن پولیس نے راستہ روک رکھا تھا اور لوگوں کو کہا جارہا تھا کہ جو مدد کے لیے سنٹرز بنائے گئے ہیں وہاں جاکر اپنی مدد دیں۔ حکومت کے کارندے متاثرہ لوگوں میں مدد تقسیم کریں گے۔ پھر کیا تھا مدد کا ایک سمندر امڈ پڑا جس سے جو ہوسکا مدد سنٹرز پر لالاکر جمع کرنے شروع کیے۔ ا نشورنس کمپنیوں نے ہاتھ اٹھالیا کیوں کہ انشورنس کمپنیوں کے شرائط میں قدرتی آفات شامل نہیں ہے لہٰذا حکومت اور تمام بینکس نے مل کر لوگوں کو راحت پہنچائی۔ انشورنس کمپنیوں کے رویہ پر مجھے ہندوستان میں بنی فلم Oh My God (OMG) میں پریش راول کی اداکاری یاد آگئی جس میں انہوں نے اپنی دکان کے زلزلے میں تباہ ہونے پر خدا پر دعوی ٹھوک دیا تھا۔ بہرحال دھیرے دھیرے حالات معمول پر آنے لگے اور ہر کوئی فون پر معمولی سے الرٹ کو بھی اہمیت دینے لگا۔ گھروں میں سب سے پہلے کافی مقدار میں اناج، ترکاریاں گوشت وغیرہ جمع کرنا شروع ہوا لیکن جوق در جوق بینکس کا رخ کیے اور ڈالرز حاصل کرکے گھروں میں احتیاطاً رکھنے لگے۔ بے شک کینیڈا ہو کہ ہندوستان انسان قدرت کے مقابلے میں بالکل بے بس ہے اور اسے ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ہمارے مکان میں جو بیٹھنے کا کمرہ ہے اس کے ابتدائی حصے میں الیکٹرانک صوفہ بچھا ہوا ہے جو کہ کرنٹ سے چلتا ہے اور ہم لوگ اسے حسب ضرورت آگے پیچھے کرکے آرام کرسی کی طرح استعمال کرتے ہیں اور وہ اتنا لمبا ہوجاتا ہے کہ دروازے سے کوئی اندر نہیں جاسکتا۔ ہمارے کسی گھر کے فرد نے اسے دراز کیا ہوا تھا اور کرنٹ چلے جانے کی وجہ سے اسے پیچھے نہیں کیا جاسکتا لہٰذا وہ صوفہ عذاب جان بن گیا اور وزن اتنا کہ چار پانچ لوگ اسے ہٹانے کے لیے درکار ہیں۔
آندھی کے دوران Dun Robin علاقے میں ایک سفید فام جو کہ مکان کی دوسری منزل پر رہتا تھا آندھی کے زد سے اس کے مکان کی چھت اڑگئی اور اس کی چھوٹی بچی بھی ہوا کے ساتھ اڑکر چلے جارہی تھی۔اس شخص نے فوری اپنی ننھی سی لڑکی کو پیروں سے پکڑکر لٹک گیا اور سمجھ گیا کہ اب میری اور میری بیٹی کی موت یقینی ہے لیکن قدرت نے اسے بچالیا۔ دوسرے روز وہ شخص اسی واقعہ کو واٹس ایپ پر عام کیا اور روتے روتے اپنی داستان سنائی۔ بے شک سچ ہے کہ ’’جسے اللہ رکھنے اسے کون چکھے‘‘