کے سی آر کا قومی عزم

   

اتنی نہ بڑھاپاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
کے سی آر کا قومی عزم
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے لوک سبھا انتخابات کے لیے ٹی آر ایس کی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے اپنے قومی عزائم کا اظہار کیا ۔ یقین محکم ، عمل پیہم کے ساتھ اگر چیف منسٹر تلنگانہ عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے مرکز میں قدم جمانے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے جو قومی تقاضے ہوتے ہیں انہیں پورا کرنے میں بھی کامیاب ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ علاقائی لیڈر کے قومی خواب بلا شبہ عوامی خدمت کے جذبہ ، تجربہ اور مثالی اقدامات سے پورے ہوتے ہیں ۔ چیف منسٹر کی شیریں کلامی اور دل کی کشادگی سے پیدا ہونے والی قومی سیاسی صورتحال ان کے موافق ہوتی ہے تو وہ مرکز میں درست حکمت عملی اور پیش دستی کے ساتھ مستحکم ہوسکتے ہیں ۔ ملک کے مستقبل کے لیے انہوں نے دیگر علاقائی پارٹیوں کے ساتھ مل کر منصوبے بنائے ہیں ۔ اگر ضروری ہوا تو وہ لوک سبھا انتخابات کے بعد ایک قومی پارٹی بھی قائم کرنے سے پس و پیش نہیں کریں گے ۔ یہ ملک بی جے پی اور کانگریس سے نجات چاہتا ہے ۔ دونوں پارٹیوں کی غلط حکمرانی سے ترقی ٹھپ ہے اور میں اپنے جسم کے آخری قطرۂ خون تک اپنے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا ۔ چیف منسٹر نے یہ الفاظ کریم نگر کے جلسہ عام میں استعمال کیے ۔ ان کا لب و لہجہ ان کے ’سیاسی مقاصد ‘کو ظاہر کررہا تھا ۔ ’کانگریس اور بی جے پی مکت بھارت ‘کا نعرہ دے کر کے سی آر نے اپنے قومی سیاسی سفر کا ارادہ تو ظاہر کیا ہے لیکن اس ملک میں گذشتہ 7 دہوں کے دوران کتنے علاقائی قائدین نے یہ خواب دیکھے تھے اور کن کن کو کامیابی ملی اس کی تفصیل میں گئے بغیر کے سی آر نے جو کچھ منصوبے بنائے ہیں ان پر اگر وہ محنت کرتے ہیں تو کامیابی ضرور ملے گی ۔ سوال یہ ہے کہ آخر ٹی آر ایس کے منتخب 16 ارکان پارلیمنٹ (امکانی ) کو لے کر وہ کیا تیر مار سکیں گے ۔ انہوں نے جن دیگر علاقائی پارٹیوں کو ساتھ لے کر ’قومی طاقت ‘بنانے کا اعلان کیا ہے ۔ اس میں انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی ، کسی بھی علاقائی لیڈر نے ان کے وفاقی محاذ میں دلچسپی نہیں دکھائی ہے پھر بھی وہ علاقائی پارٹیوں کو یکجا کر کے 150 تا 160 ارکان پارلیمنٹ کی طاقت بنانا چاہتے ہیں ۔ قومی سطح پر بادشاہ گر کا رول ادا کرنے کا موقع ملے گا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ مگر خواہش رکھنے اور اس خواہش کو پورا کرنے میں بہت بڑا فاصلہ ہوتا ہے ۔ قومی سیاست میں تلنگانہ کو بڑا رول ادا کرنے کا موقع ملتا ہے تو یہ واقعی مسرت کی بات ہوگی ۔ کے سی آر کے مطابق اس ملک کو ایک جامع نظم و نسق اور عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ ایک مستحکم حکومت لانے کے لیے وفاقی محاذ کس حد تک کامیاب ہوگا یہ تو عام انتخابات کے نتائج کے بعد ہی معلوم ہوگا ۔ انتخابی نتائج سے پہلے خوش فہمی کا شکار ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بعض مرتبہ خوشیاں راس آتی ہیں تو بعض اوقات ان کا اثر الٹا ہوجاتا ہے لیکن نیک خواہشات کے ساتھ کے سی آر کے قومی عزائم میں کامیابی کی امید کرتے ہیں ۔ کے سی آر چاہتے ہیں کہ ہندوستان سے دو قومی پارٹیوں بی جے پی اور کانگریس کا ہی صفایا کردیں ۔ ان کا یہ خیال ہی ان کے قومی عزم کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے ۔ دو بڑی قومی پارٹیوں کے بغیر کوئی علاقائی لیڈر مرکز میں اہم رول کس طرح ادا کرسکے گا ۔ غیر متوقع بات ہے تاہم اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کے سی آر کو ’کرشمہ ساز ‘لیڈر سمجھا جائے گا ۔ کے چندر شیکھر راؤ نے کریم نگر کے جلسہ عام میں تلنگانہ کے عوام سے اپیل کی کہ وہ انہیں آشیرواد دیں کہ وہ عوام کی مدد سے اس ملک کا چہرہ ہی بدل دیں گے ۔ ٹی آر ایس کو ووٹ دے کر اسے قومی سطح تک اونچا اٹھنے میں مدد کریں ۔ تلنگانہ کو گذشتہ پانچ سال کے دوران ملک کی ان 6 تا 7 ریاستوں کی صف میں لاکھڑا کیا گیا ہے جو اس ملک کو چلا رہی ہیں ۔ ملک کی تعمیر نو اور اس کو ترقی کی دوڑ میں آگے لے جانے کا عزم کے سی آر کا نیک جذبہ ہے ۔ اس نوع کے جذبات ماضی میں بھی کئی قائدین کے اندر دیکھے جاچکے ہیں ۔ مگر چشم فلک نے دیکھا کہ یہ عزائم سرد پڑ گئے اور مکڑی کا جالا ثابت ہوئے ۔ ملک کی حالیہ تاریخ میں باولے لوگ ہی ’معمار قوم ‘کے طور پر جگمگا رہے ہیں ۔ بہر حال کے سی آر کا قومی سیاست کا عزم اس قدر مضبوط ہے تو وہ قومی چیلنجس کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔۔