گیان واپی مسجد میں پوجا کی اجازت !

   

وارانسی کی ایک عدالت نے آج ایک فیصلہ دیتے ہوئے ہندو فریق کو گیان واپی مسجد کے نچلے حصے میں پوجا کی اجازت دیدی ہے ۔ یہ ایک طرح سے نیا تنازعہ پیدا کردیا گیا ہے اور یہ اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں کہ بابری مسجد۔ رام جنم مہم تنازعہ کی طرح اب گیان واپی مسجد کے تنازعہ کو بھی کئی دہوں تک کھینچا جائیگا ۔ بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تنازعہ سپریم کورٹ کے اعتقاد کی بنیاد پر دئے گئے فیصلے کی وجہ سے اپنے منطقی انجام کوپہونچا تھا ۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر عمل میںلائی جا رہی ہے ۔ مندر کے ابتدائی حصے کا افتتاح بھی کردیا گیا ۔ اس کی ملک بھر میں بے تحاشہ تشہیر بھی کی گئی ۔ بی جے پی اس مسئلہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں جٹ گئی ہے ۔ اب ایک نیا تنازعہ پیدا کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ متھرا کی عیدگاہ کا بھی تنازعہ ایسا لگتا ہے کہ وقت کا منتظر ہے ۔ اسے بھی ایک بڑے مسئلہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ جس طرح سے بابری مسجد تنازعہ کے بعد سے متھرا اور گیان واپی مساجد کے تعلق سے منظم انداز میں ایک مہم شروع کی گئی تھی اسی وقت سے یہ خدشے سر ابھار رہے تھے کہ یہ بھی بڑے مسائل میں تبدیل کئے جاسکتے ہیں اور ان کے ذریعہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کی جاسکتی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عدالتوں کے ذریعہ یہ فیصلے دئے جا رہے ہیںجبکہ ملک میں ایک قانون موجود ہے۔ 1991 کا قانون برائے عبادتگاہ میں یہ واضح صراحت موجود ہے کہ 15 اگسٹ 1945 کو جس کسی عبادتگاہ کا جو کچھ بھی موقف تھا وہ برقرار رہے گا ۔ اس قانون کو ایک طرح سے ملک کی ہندو برادری نے قبول کرنے سے عملا انکار کردیا ہے اور ملک کی عدالتوں میں بھی اس کا کوئی پاس و لحاظ دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ جہاں تک گیان واپی مسجد کا سوال ہے تو اس معاملے میں بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے ۔ جو قانون بنایا گیا تھا اس سے صرف بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تنازعہ کو استثنی دیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ ہر عبادتگاہ کے معاملے میں یہ قانون لاگو اور نافذ ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس قانون کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور عملا اس کو قبول نہیںکیا جارہا ہے ۔
یہ بات تو طئے نظر آتی ہے کہ ہندو فریق اس طرح سے یکے بعد دیگرے مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنے کی مہم شروع کرچکا ہے ۔ کچھ لوگ تین مساجد کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ سینکڑوں بلکہ ہزاروں مساجد کی حوالگی کی بات کی جا رہی ہے ۔ ایسے میں مسلم ذمہ داران کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ چند مہینوںسے گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ مسجد کے تعلق سے عدالتی کشاکش کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ عدالتی کشاکش کو طوالت دی جائیگی ۔ ایک تاثر یہ بھی پیدا ہونے لگا ہے کہ ان معاملات کو بھی بسرعت نپٹاتے ہوئے مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ایسے میں مسلم ذمہ داروں کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے ۔ عدالتوں میں ہندو فریق کے دعووں کا جواب داخل کرنے یا پھر دیگر امور پر بحث کرنے کی بجائے 1991 کے قانون کی بات کی جانی چاہئے ۔موثر ڈھنگ سے اس کی پیروی کی جانی چاہئے ۔ عدالتوںسے یہ نمائندگی ہونی چاہئے کہ ملک کے قانون کے مطابق کسی بھی عیدگاہ پر ہونے والا دعوی اب قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ ملک کی پارلیمنٹ میں یہ قانون بنایا گیا تھا ۔ سوائے بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ کے تمام عبادتگاہوں کا اس قانون کے تحت احاطہ کیا گیا تھا تو پھر اب اس طرح کی درخواستوں کی سماعت کے جواز کو ہی چیلنج کیا جانا چاہئے ۔ مسلم ذمہ داران کو اب ایک جامع حکمت عملی بناتے ہوئے حرکت میںآنے کی ضرورت ہے ۔
ملک بھر میں جس طرح کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اور جس طرح سے مخالف مسلم سازشوںکو پنپنے کا موقع دیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعہ عبادتگاہوںکو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو محض لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم اپنی عبادتگاہوں کا تحفظ نہیںکرسکتے ۔ مسلم سیاسی قائدین چاہے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ‘ پرسنل لا بورڈ ہو یا پھر دوسری مذہبی شخصیتیوں ہوںسبھی کو اس معاملے میں اپنا اپنا رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مذہبی تشخص اور عبادتگاہوںکے تحفظ کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا جانا چاہئے اور اس میںتاخیر مزید مسائل کا سبب بن سکتی ہے ۔