ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا

   

کورونا کے سایہ میں پارلیمنٹ سیشن… ارکان کی دھڑکنیں تیز
کانگریس کو نئے صدر کی تلاش … پرینکا گاندھی سے توقعات

رشیدالدین
کورونا کے بھیانک سایہ میں پارلیمنٹ کا مانسون سیشن آئندہ ماہ ستمبر میں طلب کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ اجلاس کا نام سنتے ہی ارکان پارلیمنٹ کے دلوں کی دھڑکن تیز ہوگئی کیونکہ مہلک وائرس کا قہر ابھی جاری ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں کورونا کی صورتحال بھلے ہی قابو میں ہو لیکن ہندوستان میں کیسیس کی تعداد میں کمی کے بجائے روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین نے ملک میں کورونا کے دوسرے دور کے قہر کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ ان حالات میں حکومت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے عوام کی زندگی سے کھلواڑ کر رہی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی مصروفیات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے ہندوستان کورونا سے نجات حاصل کرچکا ہو۔ صورتحال کی سنگینی کے باوجود نریندر مودی تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ عوامی زندگی کے تحفظ کے دستوری فریضہ کو بھلاکر قوم کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لاک ڈاون کی برخواستگی کے ذریعہ عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے بجائے عوام کو بے سر و سامانی کے عالم میں مرض سے مقابلہ کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ کورونا کی ویکسن تیار نہیں ہوئی تو دوسری طرف سرکاری سطح پر غریبوں کے علاج کی موثر سہولتیں دستیاب نہیں۔ کورونا کا علاج تجارت بن چکا ہے جس کے پاس دولت ہے کارپوریٹ ہاسپٹلس کے دروازے اس کیلئے کھلے ہیں جبکہ عام آدمی کیلئے نو انٹری کا بورڈ آویزاں ہے۔ عوام کو بے یار و مددگار چھوڑنے کے بعد اب ارکان پارلیمنٹ کی جان جوکھم میں ڈالنے کی تیاری ہے۔ سماجی فاصلہ کے ساتھ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ارکان کے لئے نشستوں کے انتظام کی تیاریاں ہیں۔ کورونا قواعد کے مطابق کسی بھی بڑے مذہبی اور سیاسی اجتماع ، کانفرنس یا سمینار کے انعقاد کی اجازت نہیں ہے ۔ شادی بیاہ میں 50 اور میتوں میں 20 افراد کے شرکت کی حد مقرر کی گئی ہے۔ پھر کس طرح اور کس زمرہ میں پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے ؟ ایسا نہیں ہے کہ اجلاس آن لائین ہوگا۔ یہاں تو دونوں ایوانوں کے ارکان بہ نفس نفیس شرکت کریں گے اور تمام ایک ہی حال میں رہیں گے۔ وزارت داخلہ کے شرائط کے مطابق جب 50 سے زیادہ افراد کے جمع ہونے کی اجازت نہیں تو لوک سبھا کے 543 اور راجیہ سبھا کے 245 ارکان کس قانون کے تحت جمع ہوسکتے ہیں۔ کیا قانون ساز ادارے اور اس کے ارکان قانون سے بالاتر ہیں ؟ کیا ان پر شرائط کا اطلاق نہیں ہوگا ؟ کیا کورونا لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں داخل نہیں ہوگا ؟ ارکان پارلیمنٹ کو متاثر نہ کرنے کی کورونا نے کیا کوئی ضمانت دی ہے ؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہوگا۔ جب ہر انسان کے ساتھ کورونا کا معاملہ یکساں ہے تو پھر ارکان پارلیمنٹ ، مرکزی وزراء اور پارلیمنٹ کے اسٹاف کی جان جوکھم میں ڈالنے کا جواز کیا ہوسکتا ہے ۔ بیشتر ارکان کی عمر 50 سے 60 سال کے درمیان ہے اور بعض 70 کے قریب ہے۔ ان میں کئی کو کچھ نہ کچھ عارضہ بھی لاحق ہے جو کورونا کا بآسانی شکار بناسکتا ہے۔ راجیہ سبھا کو ایلڈرس یا سینئرس کا ایوان کہا جاتا ہے جس کے ارکان کی اکثریت زائد عمر والوں پر مشتمل ہے۔ مذکورہ ناقابل تردید حقائق کے باوجود اجلاس طلب کرنا خطرہ سے خالی نہیں۔ اجلاس کے دوران نشستیں بظاہر فاصلہ پر ہوں لیکن ایوان کے باہر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایسے میں ایک بھی رکن کورونا سے متاثر ہوجائے تو کس کی ذمہ داری ہوگی ۔ ایک بھی رکن کا متاثر ہونا محض ایک خاندان ہی نہیں بلکہ حلقہ انتخاب کے دو تا چار لاکھ رائے دہندوں کے نقصان کے مترادف ہوگا۔ ملک میں جب کورونا کیسیس کی تعداد کم تھی ، 21 روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا جس میں تین ماہ تک توسیع کی گئی۔ اب جبکہ کیسیس روزانہ اپنا ریکارڈ توڑ رہے ہیں، ایسے میں ان لاک کا تسلسل شروع ہوگیا۔ عام زندگی بحال کرنے کے بعد پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا جارہا ہے۔

پارلیمنٹ کھول کر آخر حکومت کیا پیام دینا چاہتی ہے۔ کیا ملک میں کورونا کا خاتمہ ہوگیا یا پھر پارلیمنٹ اجلاس سے کورونا ڈر کر بھاگ جائے گا ۔ عوام کو سماجی فاصلہ ، گھروں تک محدود رہنے اور دیگر احتیاطی تدابیر کا مشورہ دیا جارہا ہے لیکن پارلیمنٹ سیشن کے ذریعہ خلاف ورزی کی تیاری ہے۔ کورونا سے عوام کی حفاظت میں ناکام حکومت کے پاس ارکان پارلیمنٹ کے محفوظ رہنے کی کیا گیارنٹی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پارلیمنٹ سیشن کی عجلت کیوں ؟ ایسا کیا سنگین مسئلہ اور بحران پیدا ہوگیا کہ جس کی یکسوئی صرف پارلیمنٹ سے کی جاسکتی ہے ۔ ایسا کونسا مسئلہ ہے جس پر فوری مباحث کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو اگر کوئی قانون سازی کرنی ہو توآرڈیننس کا سہارا لے سکتے ہیں جس کیلئے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری نہیں۔ وباء کی ہنگامی صورتحال سے بڑھ کر اور کوئی مسئلہ نہیں ہوسکتا جس کیلئے پارلیمنٹ طلب کرنا پڑے۔ ویسے بھی کورونا سے نمٹنے میں مودی حکومت کی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کورونا کے آغاز کے وقت ہوچکا تھا ۔ فروری میں کورونا نے ملک پر دستک دی لیکن 24 مارچ تک پارلیمنٹ کا سیشن چلتا رہا۔ اترپردیش کے دو وزراء کورونا کے سبب لقمہ اجل بن گئے ، بعض مرکزی وزراء متاثر ہوئے ۔ مودی حکومت کے نمبر 2 وزیر داخلہ امیت شاہ ابھی تک کورونا سے سنبھل نہیں پائے ۔ ایک ہاسپٹل میں علاج کے بعد انہیں دوبارہ ایمس میں شریک کرنا پڑا۔ امیت شاہ کا متاثر ہونا یقینی طور پر حکومت کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ کورونا کے خوف میں نریندر مودی کو اپنے وزیر باتدبیر کی عیادت سے روکے رکھا۔ سیاسی مبصرین اور طبی ماہرین کی نظر میں کورونا کے عروج کے وقت پارلیمنٹ سیشن طلب کرنا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے جو ارکان کے لئے کسی خطرہ کی گھنٹی سے کم نہیں۔

کانگریس پارٹی کو نئے صدر کی تلاش ہے۔ تحریک آزادی میں اہم رول ادا کرنے والی پارٹی اور جس پارٹی کے اہم قائدین نے ملک کی سالمیت کیلئے اپنی جانیں قربان کیں ، آج وہی پارٹی قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ سونیا گاندھی کو عبوری صدر کی حیثیت سے مقرر کیا گیا تھا اور ان کی میعاد مکمل ہونے کے قریب ہے، ایسے میں نئے صدر کی تلاش تیز کردی گئی۔ 2014 ء عام انتخابات میں کانگریس کی شکست کے بعد سے نہ صرف قائدین بلکہ کیڈر کے حوصلے پست ہیں۔ 2019 ء میں دوسری مرتبہ نریندر مودی واضح اکثریت کے ساتھ برسر اقتدار آئے اور کانگریس اپوزیشن کا موقف حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔ راہول گاندھی نے انتخابات کی قیادت کی تھی لیکن دونوں مرتبہ وہ اپنی صلاحیتوں کو منوانے میں ناکام رہے ۔ راہول گاندھی کی مقبولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں پر سینئر قائدین کو شبہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پارٹی میں داخلی مسائل سے نمٹنے میں راہول گاندھی ناکام رہے۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت کو زوال سے بچانے میں ہائی کمان ناکام ثابت ہوا ۔ حالانکہ بغاوت کرنے والے جونیئر سندھیا راہول گاندھی کے بااعتماد ساتھی تھے۔ مدھیہ پردیش کے بعد راہول گاندھی کی صلاحیتوں پر پارٹی میں کھلے عام بحث کی جانے لگی۔ قیادت کا بحران جاری تھا کہ اچانک راجستھان کی اشوک گہلوٹ حکومت پر خطرہ منڈلانے لگا۔ سچن پائلٹ نے بغاوت کردی لیکن وہ بی جے پی میں شامل نہیں ہوئے۔ راجستھان کے بحران کی یکسوئی میں راہول گاندھی سے زیادہ پرینکا گاندھی نے اہم رول ادا کیا۔ راہول گاندھی پارٹی کی صدارت قبول کرنے تیار نہیں ہیں اور پرینکا نے یہ کہتے ہوئے کئی قائدین کو صدارت کی دوڑ میں شامل کردیا کہ پارٹی کے لئے غیر گاندھی صدر ہونا چاہئے۔ پرینکا کے اس بیان کے بعد کئی سینئر قائدین خود کو صدارت کا دعویدار محسوس کر رہے ہیں۔ حالانکہ پارٹی میں ایک بھی چہرہ ایسا نہیں جو قومی سطح پر عوامی مقبول تصور کیا جاسکے ۔ ملک کے موجودہ حالات اور کانگریس پارٹی کے نشیب و فراز پر نظر رکھنے والی شخصیتوں کا ماننا ہے کہ اگر غیر گاندھی صدر منتخب کیا جاتا ہے تو پارٹی کا حشر وہی ہوگا جو سیتارام کیسری کے دور میں ہوا تھا۔ کانگریس کی بقاء اور استحکام میں سنجیدہ قائدین کی نظریں پرینکا گاندھی کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ پرینکا میں اندرا گاندھی کی جھلک ہے اور وہ اترپردیش میں کانگریس کی کمان سنبھال کر کسی قدر تجربہ حاصل کرچکی ہیں۔ اب جبکہ بہار کے انتخابات قریب ہیں ، کانگریس کو پرینکا گاندھی کی قیادت میں مقابلہ کی تیاری کرنی چاہئے۔ سیاسی جماعتوں میں نشیب و فراز عارضی ہوتے ہیں اور گاندھی نہرو خاندان کی خدمات کو ملک فراموش نہیں کرسکتا۔ مظفر وارثی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا