ہاتھ اُس کا مری دستار تک آ پہنچا ہے

,

   

قلم پر پہرہ …صحافی اور جہد کار نشانہ پر
مخالف آواز دبانے کی کوشش … لوک سبھا چناؤ میں شکست کا خوف

رشید الدین
’’ قلم کو یرغمال بنانے کی کوشش‘‘ سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائی اور مخالف آوازوں کو دبانے کی کوشش کے بارے میں ہر کسی نے سنا اور دیکھا ہوگا لیکن مودی کے ’’امرت کال‘‘ میں قلم کو قید کرنے کی نئی روایت شروع ہوئی ہے۔ اندرا گاندھی دور میں ایمرجنسی کے دوران میڈیا اور سیاسی پارٹیوں پر کنٹرول کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے لیکن آج کا ماحول ایمرجنسی سے بھی دو چار قدم آگے ہے۔ ایمرجنسی کے حالات کا مشاہدہ کرنے والے سینئر صحافیوں کی رائے ہے کہ مودی حکومت نے غیر معلنہ ایمرجنسی کے ذریعہ نہ صرف قلم بلکہ آواز کو کچلنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔ جمہوریت کے نام پر مودی حکومت کی تاناشاہی ہے۔ نریندر مودی گذشتہ 9 برسوں کے دوران ایک شہنشاہ کی طرح حکمرانی کررہے ہیں اور بادشاہ سلامت کو حکومت، پارٹی اور سماج کہیں بھی مخالف آواز پسند نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں داخلہ کے وقت ارکان کو فراہم کردہ دستور ہند کی کتاب سے لفظ سیکولر اور جمہوریت حذف کردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں سیکولرازم اور جمہوریت کا خاتمہ ہوچکا ہے لہذا مودی حکومت نے دستور سے ان الفاظ کو نکال دیا۔ یوں تو گذشتہ 9 برسوں کے دوران مخالفین کے خلاف کئی کارروائیاں کی گئیں۔ سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس جیسے اداروں نے اپنے قیام سے لے کر جتنا کام نہیں کیا اس سے کہیں زیادہ گذشتہ 9 برسوں میں کام ہوا جس کے تحت چن چن کر مخالفین کو جیلوں میں بند کیا گیا۔ سیاستداں، جہد کار، سماجی کارکن، صحافی اور فنکار کوئی شعبہ بھی مودی حکومت کے عتاب سے بچ نہیں سکا۔ مودی حکومت نے سارے میڈیا پر کنٹرول کرتے ہوئے اسے گودی میڈیا اور اینکرس کو چاٹوکار میں تبدیل کردیا۔ مین اسٹریم میڈیا پر کنٹرول کے باوجود ویب سائیٹ چینلس اور یو ٹیوب چینلس پر آزاد صحافیوں کی رپورٹنگ، تبصروں اور حکومت سے سوالات نے مودی کی نیند اُڑادی ہے۔ سوال کرنے والی کوئی آواز وزیر اعظم کو پسند نہیں، شاید اسی لئے نریندر مودی نے نو برسوں کے دوران ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی۔ آزادی اظہارِ خیال جو دستوری حق ہے اورآزادی صحافت کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ مقدمات، ہراسانی اور پابندیوں کے باوجود جب حکومت سے سوال کرنے والے صحافیوں کو مقبولیت حاصل ہونے لگی اور عوام نے گودی میڈیا دیکھنا بند کردیا تو بے باک، آزاد اور حق گو صحافیوں اور جہد کاروں کے خلاف گھیرا تنگ کردیا گیا۔ اُن کا قصور بس یہ ہے کہ وہ عوام کی آواز بن چکے ہیں۔ 4 اکٹوبر علی الصبح نئی دہلی میں 30 سے زائد صحافیوں اور جہد کاروں کے گھروں پر پولیس نے بیک وقت دستک دی اور ملک دشمن سرگرمیوں کے الزام کے تحت تلاشی لی گئی۔ نیوزکلک پورٹل سے وابستہ تمام صحافیوں کے لیاپ ٹاپ اور موبائیل فون ضبط کرتے ہوئے بعض کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ صحافیوں کو پولیس اسٹیشن لے جاکر دن بھر پوچھ تاچھ کی گئی۔ ملک کی تاریخ میں وہ سیاہ دن بھی شامل ہوگیا جب عوام کی آواز بننے والے صحافیوں پر ملک دشمنی کے الزامات کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ نیوز کلک پر چین سے فنڈنگ کا الزام ہے۔ چین سے فنڈز حاصل کرتے ہوئے ہندوستان کے خلاف مہم چلانے سے متعلق الزامات میں کوئی سچائی دکھائی نہیں دیتی۔ جن صحافیوں اور جہد کاروں پر چین سے لاکھوں روپئے حاصل کرنے کا الزام ہے اُن کی تحریر، تقریر، بیان یا سوشیل میڈیا میں ٹوئیٹ اور پوسٹ کے علاوہ یو ٹیوب پر کوئی ویڈیو ایسا نہیں جس میں چین کی تائید اور ہندوستان کی مذمت کی گئی ہو۔ جیسے جیسے لوک سبھا چناؤ قریب آرہے ہیں مودی اینڈ کمپنی پر شکست کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ شکست سے بچنے کیلئے ہر مخالف آواز کو دبانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ابتداء میں چاٹوکاری اور بھجن منڈلی میں شمولیت سے انکار کرنے والے صحافیوں کو چینلس سے نکال دیا گیا۔ سوشیل میڈیا پر جب ان کی مقبولیت گودی میڈیا چینلس سے آگے بڑھ گئی تو مقدمات کی سازش تیار کی گئی۔ جہاں تک نیوز کلک اور اس کے صحافیوں کو چین سے فنڈنگ کا معاملہ ہے اس بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔ فنڈنگ جب مل رہی تھی تو مخالف ہندوستان سرگرمیاں بھی پروگرامس کی شکل میں ضرور ہونی چاہیئے لیکن ایک بھی قابل اعتراض ویڈیو نہیں ملا باوجود اس کے دہشت گرد سرگرمیوں سے متعلق قانون کا اطلاق کیا گیا۔ چین کے نام پر صحافیوں کو گرفتار کرنے سے قبل نریندر مودی ہندوستانی سرزمین پر چین کے قبضہ کو ختم کرتے ہوئے پنی بہادری کا مظاہرہ کریں۔ اطلاعات کے مطابق چین نے ہندوستانی علاقہ پر نہ صرف کنٹرول بلکہ بستیاں بسانا شروع کردیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کے جگری دوست اڈانی کی کمپنیوں میں چین کی سرمایہ کاری پر مرکزی حکومت خاموش کیوں ہے۔ نیوز کلک جب چین سے فنڈز نہیں لے سکتا تو پھر اڈانی کی کمپنیوں میں چینی سرمایہ کاری کی اجازت کیوں ہے؟۔ اڈانی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ پولیس نے صحافیوں اور جہد کاروں سے دہلی فسادات، شاہین باغ احتجاج، جامعہ ملیہ احتجاج اور کسانوں کے احتجاج سے متعلق سوالات کئے تاکہ ملک دشمنی کے کسی نہ کسی الزام کے تحت کارروائی کی جاسکے۔ حکومت کو جان لینا چاہیئے کہ قلم کو قید اور یرغمال بنایا جاسکتا ہے لیکن افکار اور نظریہ کو قید نہیں کیا جاسکتا۔ صحافت، جہدکاروں اور سماجی کارکنوں پر قدغن سے حکومت کے خلاف عوام میں مخالفت کی لہر پیدا ہوگی اور یہ لہر اقتدار کو بہا لے جانے کی طاقت رکھتی ہے۔
مخالف آوازوں کو کچلنے کیلئے اپوزیشن قائدین کو نشانہ بنایا گیا۔اتر پردیش میں اعظم خاں زندہ مثال ہے جن کے سارے خاندان کو مقدمات میں گھیر کر پارلیمنٹ اور اسمبلی کی رکنیت سے بھی محروم کردیا گیا۔ اب اعظم خاں کی یونیورسٹی پر بری نظریں ہیں۔ اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، آسام، ٹاملناڈو، دہلی اور تلنگانہ میں مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کو اپوزیشن قائدین کے تعاقب میں چھوڑ دیا گیا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو بھی بخشا نہیں گیا۔ دہلی میں بی جے پی کا صفایا کرنے والی عام آدمی پارٹی فی الوقت نشانہ پر ہے۔ شراب اسکام میں ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا کو جاریہ سال فروری میں سی بی آئی نے گرفتار کیا اور وہ 8 ماہ سے جیل میں ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس میں ریاستی وزیر ستیندر جین مئی 2022 سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ تازہ ترین معاملہ میں عام آدمی پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سنجے سنگھ کو انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے گرفتار کرلیا۔ مبصرین کے مطابق ملک میں مودی کا جادو اپنا اثر کھونے لگا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مودی کی جملہ بازی کا ہجوم پر جادوئی اثر ہوا کرتا تھا لیکن آج مودی کی جذباتی تقاریر بھی عوام کو جذبات میں لانے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ 4 اہم ریاستوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات میں رائے دہندوں کا رجحان ملک میں بی جے پی کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں کانگریس کے اقتدار کی پیش قیاسی کی جارہی ہے جبکہ راجستھان میں کانگریس کو حکومت بچانے کیلئے کانٹے کی ٹکر ہے۔ بی جے پی مدھیہ پردیش میں حکومت بچاؤ مہم میں مصروف ہے لیکن تازہ ترین سروے رپورٹس کے مطابق بی جے پی حکومت کا بچاؤ ممکن نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے اگرچہ اسمبلی چناؤ کے شیڈول کا اعلان نہیں کیا لیکن اہم پارٹیاں انتخابی مہم کا آغاز کرچکی ہیں۔ بی جے پی کی انتخابی مہم کی کمان نریندر مودی نے سنبھال رکھی ہے اور غیر متوقع طور پر امیت شاہ اور جے پی نڈا پس منظر میں دکھائی دے رہے ہیں۔ دراصل بی جے پی کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں ہیں اور دبے الفاظ میں مخالف مودی قائدین اظہار خیال کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ چار ریاستوں کے نتائج کے بعد مخالف مودی گروپ علم بغاوت بلند کرے گا اور لوک سبھا چناؤ کیلئے مودی کے متبادل کی تلاش شروع ہوگی۔ فرقہ واریت کا بھوت مودی کے سر سے اترنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کی انتخابی مہم میں نریندر مودی ترقی کے نام پر ووٹ مانگنے کے بجائے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو ہوا دے رہے ہیں۔ راجستھان میں مودی نے کہا کہ کوئی بھی ہندو تہوار پتھراؤ کے واقعات کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم دراصل مسلمانوں کو نشانہ بنارہے تھے۔ نریندر مودی نے راجستھان میں گذشتہ دنوں مسلم نوجوان کی ماب لنچنگ میں ہلاکت اور دہلی میں مندر سے موز کھانے پر مسلم نوجوان کو مار مار کر ہلاک کرنے جیسے واقعات پر اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔ انہو ں نے آج تک مسلمانوں پر مظالم کے کسی بھی واقعہ کی مذمت نہیں کی لیکن انتخابی مہم میں ہندو تہواروں پر مسلمانوں کی جانب سے سنگباری کا الزام عائد کررہے ہیں۔ مودی نے ایک انتخابی ریالی میں ذات پات پر مبنی سروے کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ اگر آبادی کے اعتبار سے حکومت اور اسکیمات میں نمائندگی دی جائے تو پھر مسلمانوں کیلئے باقی کیا بچے گا۔ یہ ریمارک مسلمانوں سے ہمدردی کی طرح دکھائی دے رہا ہے لیکن دراصل نریندر مودی کمزور اور پسماندہ طبقات کی زائد حصہ داری کی مخالفت مسلمانوں کی آڑ میں کررہے ہیں۔ صحافیوں اور جہد کاروں کے خلاف حالیہ کارروائیوں پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: ؎
اب یہ لازم ہے کہ اعلان بغاوت کردوں
ہاتھ اُس کا مری دستار تک آ پہنچا ہے