ہندوتوا کے حامیوں کی اسرائیل کو تائید کیوں ؟

   

عامر رضا
ہندوستان کے ہندو قوم پرستوں نے اسرائیل کی ہمیشہ پرزور تائید و حمایت کی ہے۔ گزشتہ ماہ مئی میں جب اسرائیلی فورسیس نے انتہائی ظالمانہ انداز میں اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام ’’مسجد الاقصیٰ‘‘ کے احاطہ میں کارروائی کی ہندوتوا کے حامیوں بشمول حکمراں بی جے پی کے ارکان نے پرجوش طریقہ سے اسرائیل کی تائید کی اور سوشیل میڈیا پر ’’انڈیا اسٹانڈس وِتھ اسرائیل‘‘ (ہندوستان ، اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے) ’’ہم اسرائیل کے ساتھ‘‘ اور ’’اسرائیلی زندگیاں معنی رکھتی ہیں‘‘جیسے ہیش ٹیاگ ٹرینڈ کرنے لگے۔ مسلم دشمن بیانات کیلئے بدنام بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے صدر تیجسوی سوریہ نے اسرائیل کی حمایت میں کچھ یوں ٹوئٹ کیا: ’’ہم آپ کے ساتھ ہیں، مضبوط ر اسرائیل‘‘۔
ہندوتوا کے حامیوں کی جانب سے ’’صیہونیت‘‘ کی پوجا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہندوتوا کے سیاسی نظریہ میں پوری گہرائی کے ساتھ پیوست ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوتوا امیوں اور صیہونیوں میں کئی باتیں مشترک ہیں۔
دونوں میں اپنی برتری کا جذبہ ، اپنے وجود کو ہی مقدس سمجھنا اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کے تئیں نفرت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوتوا اور صیہونیت دونوں نے ایک طرح سے نسلی قوم پرستی سے شادی رچائی ہے جس کا مقصد اپنے زمانہ قدیم کی تہذیب ،نسل اور مقدس جغرافیائی حیثیت کو اجاگر کرنا ہے اور خود کو برتر بتاکر دوسروں کو کمزور بتانا ہے۔
اسی طرح ’’اکھنڈ بھارت‘‘ (متحدہ ہندوستان) کا نظریہ بھی ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے نظریہ کی طرح ہے جسے Theodor Herzel نے پیش کیا تھا اور ان دونوں نظریات میں بھی ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق دونوں نظریات مذہبی تشخص یا شناخت کی بنیاد پر ہے۔ ساتھ ہی یہ اپنے حسب منشاء معاشرت یا ریاست کیلئے مسلمانوں کی نسلی تطہیر ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوتوا قوم کا جو صیہونی تصور ہے، وہ بھی ہندوتوا کے سیاسی فلسفہ میں لپٹا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل (ناجائز مملکت) کی تخلیق سے بہت پہلے ہی ہندوتوا کے نظریہ ساز اور کٹر حامی ساورکر نے اپنی کتاب ہندوتوا میں اس خیال کا اظہار کیا کہ ایک مشترکہ قوم (راشٹر) ، ایک مشترکہ نسل (ذات) اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن (سنسکرتی) ہندوتوا کے تین بنیادی عناصر یا عوامل ہیں۔ اپنی کتاب میں ساورکر نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ لفظ ’’انڈیا‘‘ اور ہندو کہاں سے اور کیسے اخذ کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ’’انڈین‘‘ کا مطلب ’’ہندو‘‘ ہیں۔ مسلمان اور عیسائی چونکہ غیرہندو ہیں۔ اس لئے وہ ساورکر نے ہندو یا ہندوتوا کی جو تعریف کی ہے۔اس کے مطابق حقیقی ہندوستانی نہیں ہوسکتے۔ ساورکر وہ پہلا ہندوتوا نظریہ ساز ہے جس نے پرزور طریقے سے صیہونی تحریک کی تائید و حمایت کی اور اپنی کتاب ہندوتوا میں یہاں تک لکھا کہ دنیا میں ہندوؤں اور یہودیوں کے سواء کوئی دوسرے لوگ ایک نسلی اکائی کی حیثیت سے تسلیم کئے جانے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ ساورکر نے اس کتاب میں لکھا۔ یہودیوں کو دیکھئے ان میں ان ملکوں کیلئے جذبہ تشکر نہیں پایا گیا۔ جہاں انہیں سہارا ملا تھا کیا ایسے میں وہ مختلف ممالک میں جہاں وہ رہتے ہیں یا رہے ہیںت اپنے پیدائشی مقام اور انبیاء کی سرزمین کے تئیں مساویانہ طور پر رہے یکساں طور پر دونوں مقامات سے پیار کیا۔ اس کے باوجود اپنے انبیاء کی سرزمین اور اپنے پیدائشی مقام کے درمیان فرق کرنا اس کیلئے ضروری ہوگیا۔
اگر صیہونیوں کے خواب حقیقت کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔ اگر فلسطین ایک یہودی ملک میں تبدیلی ہوجاتا ہے تو ہمیں اتنی ہی خوشی و مسرت ہوگی جتنی ہمارے یہودی دوستوں کو ہوگی۔ وہ مسلمانوں کی طرح فطری طور پر امریکہ اور یوروپ میں اپنے مادر وطن سے کہیں زیادہ اپنے ارض مقدس کے مفاد کو اہمیت دیں گے۔

ہندوتوا اور صیہونیت کو متحد کرنے کی سب سے اہم وجہ ملک و قوم کو سمجھنے کا مشترکہ طریقہ اور اقلیتوں کے تئیں ناروا سلوک ہے۔ صیہونی پرتشدد طریقہ سے فلسطینیوں کو بے وطن کرنے کے خواہاں رہے ہیں اور آج بھی وہ یہی چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو بے گھر و بے وطن کردیا جائے۔ اس طرح ہندوتوا مسلمانوں کو ہندو سیاست کے ماتحت بناکر رکھنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ دونوں ان لوگوں کی نسلی تطہیر کے خواہاں ہیں، جنہیں وہ حملہ آور اور قابض سمجھتے ہیں، اچھوت سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے منصوبہ کے خیالات و نظریات کے بارے میں گولوالکر نے 1939ء میں تحریر کردہ اپنے متن ہم یا ہماری قومیت میں اظہار کیا ہے۔ باالفاظ دیگر ہندوتوا نظریہ کے حامل عناصر اور صیہونیوں کی سوچ و فکر میں غیرمعمولی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ 1939ء میں ہم اور ہماری قومیت کی تعریف کرتے ہوئے گولوالکر نے کچھ یوں لکھا تھا: ’’انڈیا بنیادی طور پر ایک ہندو ملک ہندوستان ہے۔ ہندوستان میں رہنے والے غیرہندو لوگوں کیلئے یہاں کی ہندو تہذیب و زبان کو اپنانا بہت ضروری ہے۔ انہیں یہاں غیرملکی بن کر رہنا ہوگا یا پھر ہندو قوم کے ماتحت بن کر جینا ہوگا۔ کسی چیز پر کوئی دعویٰ نہیں کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ شہری حقوق پر بھی نہیں۔ گولوالکر نے بھی اپنا نظریہ (ہندوتوا نظریہ) صیہونیوں کی سیاسی سوچ و فکر سے اخذ کیا ہے اور یہودیوں کی تائید و حمایت کرتے ہوئے فلسطین میں یہودی تہذیب و روایات کی تباہی کیلئے اسلام کی دراندازی کو ذمہ دار قرار دیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہودیوں نے جلاوطنی میں بھی اپنی نسل، اپنے مذہب ، اپنی تہذیب اور اپنی زبان کو برقرار رکھا اور اس کی حفاظت کی اور یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جو قومیت کی تکمیل کیلئے درکار تھیں اور اس سے ہی ملک بنتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ہندوتوا اور صیہونیت کی سیاست میں تمام تر توجہ زمین پر دی گئی یعنی کسی علاقہ یا کسی ملک پر ، اس کا اندازہ سرزمین فلسطین پر اسرائیل کے جابرانہ و ظالمانہ قبضہ سے ہوتا ہے۔ یہودیوں نے جس طرح فلسطینی علاقوں سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے یہودیوں کیلئے نئی بستیاں بسائی ہیں، وہ ہندوتوا کی فاشسٹ طاقت کے لئے ایک نمونہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی علاقوں میں بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت اسرائیلی طریقہ اپنا رہی ہے۔ اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے بہت ہی منظم انداز میں حصول اراضی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ان علاقوں کا تشخص و شناخت و کردار بدل کر رکھ دیا۔ خاص کر کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 منسوخ کرتے ہوئے ملکیت ِ جائیداد کی نوعیت ہی بدل کر رکھ دی اور اس ریاست میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت ہے، اس اکثریت کی اہمیت ختم کرنے کیلئے ایسے قوانین بنائی ہے، یا پھر آرٹیکل 35A اور آرٹیکل 370کو منسوخ کیا ہے تاکہ غیرمقامی افراد کشمیر میں بہ آسانی اراضی خرید سکیں۔ اس کا مقصد دراصل آبادی کے توازن کو بگاڑنا ہے۔ اگر کشمیر میں زبردستی کی جارہی آبادیاتی تبدیلی کو غور سے دیکھیں تو یہ ہمیں اسی طرح کی پالیسی پر عمل آوری کی ہوبہو نقل دکھائی دے گی جو مقبوضہ مغربی کنارہ میں اسرائیلی حکومت اپنا رہی ہے۔ جہاں اکثریتی فورسیس نے غیرقانونی کالونیاں تعمیر کی ہیں اور تجارتی مراکز قائم کردیئے۔ حد تو یہ ہے کہ وہاں بھاری فورسیس کی موجودگی میں سماجی، سیاسی تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ جو اکھنڈ بھارت کے وسیع تر نظریاتی فریم ورک کی طرز پر ہوئی ہے یعنی ’’گریٹر اسرائیل کا نظریہ‘‘۔
اگر دیکھا جائے تو حکمراں بی جے پی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہندوستان کو ایک نسلی اور مذہبی ملک میں تبدیل کرنا ہے جہاں ہندوؤں کو شہریت کے ہمہ پرتی نظام کے تحت خصوصی حقوق اور مراعات دی جائیں گی۔ آر ایس ایس اور بی جے پی جس ماڈل اسٹیٹ کا خواب دیکھ رہے ہیں یا جس کی خواہش رکھتے ہیں وہ ہمیں اسرائیل کی شکل میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ صیہونیت کے نظریہ کے خطوط پر بی جے پی نے 2019ء میں شہریت ترمیمی قانون منظور کیا جو اسرائیل کے قانون واپسی کی طرح ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ پڑوسی ملکوں کے محروم ہندوؤں کو شہریت عطا کی جائے گی جبکہ مسلمانوں کو شہریت سے محروم رکھا جائے گا۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی خاطر حکومت نے این آر سی کا منصوبہ بنایا ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنی شہریت ثابت کرنے کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی ہے۔

فلسطین کے ایک ماہر تعلیم آنجہانی ایڈورڈ کے مطابق صیہونیت نے ابتداء میں خود کو ایک ایسی تحریک کے طور پر پیش کیا، جو ایک جابرانہ تہذیب کی جگہ مہذب سماج متعارف کروانے کی خواہاں ہے۔ عربوں کو ان صیہونیوں نے انتہائی بری شکل میں پیش کیا، انہیں نامعقول بتایا، ظالم اور خوف و دہشت پیدا کرنے والوں کے طور پر پیش کیا۔ جس طرح ’’قانون واپسی‘‘ یہودیوں کو اسرائیل واپس ہونے کی اجازت دیتا ہے، اس کا اطلاق لاکھوں بے وطن فلسطینیوں پر نہیں ہوتا۔ اسی طرح شہریت کیلئے مذہب کو اصل کسوٹی بناتے ہوئے سی اے اے لایا گیا جس کا مقصد ہندوستان کو اسرائیلی طرز پر ہندو راشٹر بنانا ہے۔ ہندوتوا کے حامی مسلمانوں پر ظلم و جبر کیلئے اسرائیل کی ستائش کرتے نہیں تھکتے ۔ ان کے خیال میں اسرائیل ہی مسلمانوں کو شکست کی ہزیمت سے دوچار کرسکتا ہے۔ دنیا کی ان دو متوازی نظریاتی طاقتیں ہندوتوا اور صیہونیت نے ظالمانہ انداز میں کئے گئے فوجی قبضہ کو منصفانہ قرار دیا۔ وہ نئی بستیوں کی تعمیر اور مسلمانوں کی ناروا سلوک کی تائید کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے نظریہ اور کارروائیوں کی ستائش کرتے ہیں۔