!ہندوستانی سیاست چوکیدار۔ چور تک محیط

   

خدا ہی حفاظت کرے تو کرے
سنا باغ کو باڑ خود کھا گئی
!ہندوستانی سیاست چوکیدار۔ چور تک محیط
ہندوستانی عوام کو ’’ اچھے دن ‘‘ کا خواب دکھانے والے لیڈر نے آیا ہندوستانی سیاست کواب’ چوکیدار‘۔ ‘چور ‘تک ہی محیط کررکھا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے لئے شروع کردہ انتخابی مہم میں اب یہ دو لفظ ’ چوکیدار ‘ اور ’ چور ‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قومی سطح کی اعلیٰ سیاسی ذمہ داری ادا کرنے کی دوڑ میں شامل قائدین ایک دوسرے کے خلاف سوشیل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ایک طرف ’’ میں بھی چوکیدار ‘‘ ہیش ٹیاگکے ساتھ مہم شروع کی گئی ہے تو دوسری طرف ’’ چوکیدار چور ہے ‘‘ کے نعرہ کے ذریعہ عوام کو بیدار کیا جارہا ہے۔ ٹوئٹر پر سب سے زیادہ لائیک کیا جانے والا حکمراں پارٹی بی جے پی کا نعرہ ’’ میں بھی چوکیدار ‘‘ ہے، جبکہ صدر کانگریس راہول گاندھی کا مقبول عام نعرہ’ چوکیدار چور ہے‘‘ کو بھی ڈیجیٹل دنیا میں زبردست جگہ مل رہی ہے۔ عوام کو درپیش مسائل اور ملک کے حالات کو مدنظر رکھ کر چلائی جانے والی انتخابی مہم میں اب نیا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف اُنگلیاں اُٹھانا سیاسی پارٹیوں کا روایتی طریقہ ہوا کرتا تھا لیکن نعرہ بازی کا گھٹیا چلن عام کردیا جانا افسوسناک ہے۔ عام آدمی پارٹی کی رکن اسمبلی الکا لامبا نے جب وزیر اعظم نریندر مودی کے ’چوکیدار‘ نعرہ کے خلاف اپنا نعرہ ’’ چوکیدار تو نیپال سے بھی منگوا سکتے ہیں، اس مرتبہ وزیر اعظم کو منتخب کریں گے ‘‘ پر نسلی امتیاز برتنے کا تنازعہ پیدا ہوگیا۔ سوشیل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کے لئے یہ جملے بازیاں دلچسپ معلوم ہورہی ہیں۔ لیکن اس سے ہندوستانی سیاست کے معیار کی دھجیاں اُڑتی جارہی ہیں۔ ’ اچھے دن ‘ کا نعرہ اب چار سال کے اندر ’چوکیدار چور ہے ‘ کے نعرہ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ملک کے تاریخ دانوں، فلاسفرس اور سیاسی پنڈتوں کے لئے آج کے سیاسی حالات اور انتخابی مہم سے نفرت ضرور ہورہی ہوگی کیونکہ قومی سیاست میں مرکزی قائدین کا ایک اونچا معیار ہوا کرتا تھا، اس معیار کو تباہ کرنے والے قائدین ہی عوام کے پسندیدہ لیڈر بن رہے ہیں تو یہ افسوسناک المیہ ہے۔ ہندوستانی عوام کی سوچ و فکر میں بہت بڑا فرق پیدا کردیا گیا ہے۔ اچھے اور برے کی پہچان سے لوگ عاری ہوتے جارہے ہیں۔ چوکیدار مودی کو تنقید کا نشانہ بنانے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس چوکیدار نے ملک کے عوام کو بے وقوف بنادیا ہے۔ بی جے پی کے حلقوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کو چوکیدار کہنے میں فخر محسوس کیا جارہا ہے اور لفظ ’ چوکیدار ‘ کو پاکباز قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اپوزیشن پارٹی کانگریس کے بار بار دہرائے جانے والے جملے نے بی جے پی قائدین کو مضطرب کررکھا ہے۔’’ چوکیدار چور ہے‘‘ کا نعرہ دراصل رافیل لڑاکا طیاروں کی خریداری میں بدعنوانیوں اور اسکامس کے الزامات کے تناظر میں دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کانگریس کے صدر کو ملک کے حکمراں کے بارے میں اس طرح کا تلخ نعرہ دینے پر تنقیدوں کا سامنا ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی قومی معیاری سیاست سے نیچے اُتر کر انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ بی جے پی کی قیادت نے 2014 سے اب تک ملک کے عوام کو مختلف عنوانات سے بے وقوف بنایا اور گمراہ کیا ہے اور دفاعی معاملوں میں کئی دھاندلیوں کو پوشیدہ رکھا ہے۔ ہندوستان کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے نوٹ بندی فیصلے، جی ایس ٹی سے ہونے والے تجارتی نقصانات‘ ان سب کو نظرانداز کرکے اگر بی جے پی لیڈر خود کو ’ چوکیدار ‘ قرار دیتے ہوئے فخر محسوس کررہے ہیں تو اس فخریہ چہرے کے پیچھے پوشیدہ چہرے اگر شرمسار نہ ہوتے ہوں تو یہ تشویشناک تبدیلی ہے جس کا ہندوستانی رائے دہندوںکو سخت نوٹ لینے کی ضرورت ہے۔ اقتدار کے حصول کے لئے عوام سے ووٹ لینا ہی کامیابی متصور نہیں ہوگی بلکہ ایک کثیر الوجود ملک کے قومی سربراہ کے معیار کو بھی پرکھا جانا ضروری ہوتا ہے۔ سیاسی انداز، قومی تہذیب اور سماجی رتبہ کو پامال کرنے والی حرکتیں قومی سیاستدانوں کو زیب نہیں دیتیں۔ موجودہ انتخابی مہم چلانے والے اپنی نعرہ بازیوں سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے تعلق سے سنجیدہ نہیں ہیں۔