ہندوستان میں ایک مسئلہ ہے۔ بھوک

,

   

بھوک کے انڈیکس کی مذکورہ گہرائی یقینا ایک خطرے کی گھنٹی ہے

عالمی یوم فوڈ اور چہارشنبہ کے روز ایک خیراتی ادارے نے عالمی تشویش کے ذریعہ عالمی ہنگر انڈیس(جی ایچ ائی) کی اجرائی عمل میں جو دنیا کے 117ممالک میں سے اور اس فہرست میں ہندوستان 102ویں مقام پر ہے۔ پاکستان سے محض8نشانات نیچے (94)اور بنگلہ دیش سے چودہ(88)نیچے ہے۔

چین جس کی آبادی کا رقبہ ہندوستان جیسا ہی ہے وہی 25ویں مقام پر ہے۔ جی ایچ ائی نے غدائی قلت کا حساب لگانے کے لئے‘ بچوں کی نشونما‘ بچوں کی بربادی‘ بچوں کی اموات کے سلسلے میں کچھ نشانہ مقرر کئے ہیں

تاکہ غدا کی قلت او ربھوک مری کی سطح کا جائزہ لیا جاسکے اور ہندوستان کو 30.3نشان اس میں دئے گئے ہیں جو تمام اقسام کی بھوک کی نشاندہی میں ”سب سے حساس“ مانا جاتا ہے۔مذکورہ حکومت کو پریشان کرنے کے لئے2019کی جی ایچ ائی رپورٹ میں دو پہلو ہیں۔

ہندوستان بچوں کی بربادی رکھنے والے ممالک کے اعداد وشمار میں سب سے اگے 20.8فیصد ہے‘ جس کا مطلب بچے کے وزن کم او ر قد بھی نہیں بڑھتا ہے۔

پانچ سال کی عمر میں بچوں کی اموات کا سخت موزانہ اس میں کیاگیا ہے۔ دوسری بچوں کی نشونما کا تناسب جس کا مطلب یہ ہے کہ غیر موثر غدا کی وجہہ سے ایک عمر میں وزن کی کمی ہے او ریہ بھی کافی زیادہ بڑھاہوا ہے اور وہ 37.9فیصد ہے۔

یہ خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ انسان کی ترقی کے لئے ایک مستحکم بنیاد ضروری ہے۔ غدائی بحران کے باوجود جس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے‘

کے لئے مذکورہ اجرائی برائے اطفال معاشی سال 2019-20کے مرکزی بجٹ میں ایک رسمی اضافہ 0.05فیصد کاہے جو پچھلے بجٹ میں 3.24فیصد تھا جسکو بڑھاکہ 3.29فیصد کیاگیا ہے جس کے لئے مختص کی گئی امداد 91,644.29کروڑ ہے۔

مرکز کو چاہئے کہ وہ جی ایچ ائی کی جانب سے پیش کئے گئے نئے خطرات کی طرف بھی توجہہ جو موسمی تبدیلی پر مشتمل ہے جس کا اثر فوڈ سکیورڈی پر بھی پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیش کئے گئے اعداد وشمار اور بچوں کی نشونما‘ صفائی کے انتظامات میں بہتری‘

صاف پانی کی فراہمی‘ زچگی کے لئے بہتر صحت اور ابتدائی بچپن کی غدا کو حل کرنا کافی نہیں ہوگا۔ مزیدسرمایہ کار کسانوں کی مدد غدائی سکیورٹی کے علاوہ کھانے کو مستحکم کرنے کی حکمت عملی کے پس منظر میں غور وخوص ضروری ہوگا