ہندوستان کو آج ایک جارج فرنانڈیز کی کیوں ضرورت ہے؟

   

کرن تھاپر

لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اس وقت ایک انسان کی ضرورت ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ایسا انسان کون ہے جس کو میں بھول چکا ہوں۔ میں جتنا زیادہ سوچتا ہوں موجودہ بحران کے غلبے کا سامنا کرنے کے لئے جس کا ہمارا ملک مقابلہ کررہا ہے دو افراد یاد آتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ وہ ان حالات میں کیا کہتے۔ غالباً آپ کو حیرت ہوگی جبکہ میں ان کے نام ظاہر کروں گا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کافی طویل عرصہ سے ان کے بارے میں سوچ رہے ہوں لیکن ان کے نکات نظر آج بھی کارآمد ہیں۔ ایک ایسا شخص جارج فرنانڈیز بھی ہے۔
ہمیں تازہ ترین دو واقعات کے ساتھ آغاز کرنا ہوگا سکم اور لداخ میں چین کے ساتھ صف آرائی سے آغاز کریں گے۔ اگر جارج ہوتے تو انہیں چین کے بارے میں کوئی وہم نہ ہوتا۔ انہوں نے 1998 میں ہندوستان ٹائمس ٹیلی ویژن پروگرام میں ایک انٹرویو دیا تھا جس پر میں توجہ مرکوز کروں گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے ملک میں اس بات کی صلاحیت موجود ہے کہ اس قسم کے چیالنج کا مقابلہ کرسکے۔ انہیں کوئی شک و شبہ نہیں تھا کہ چین ہندوستان کی صیانت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ میں ہندوستان کو چین کا صرف معاشی حریف نہیں سمجھتا بلکہ ایک اہم حریف زیادہ سمجھتا ہوں۔ اس کے متبادل کے طور پر بطور مثال یہ تیسری دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو دیگر ممالک سے اونچا اٹھ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ چین ہندوستان کی جگہ لینے میں کامیاب رہے گا۔
اس وقت وہ وزیر دفاع تھے لیکن جارج فرنانڈیز خوفزدہ ہوئے بغیر یہ انٹرویو دے رہے تھے۔ یہ حکومت کا نقطہ نظر بھی نہیں تھا بلکہ ان کی بہادری کا ثبوت تھا، وہ ایک بے باک آدمی تھے اور انہوں نے ہمیشہ پھاوڑا یا بیلچہ استعمال کیا اور ضروری ہوتو عوام کے سامنے بھی استعمال کیا۔

اپنے انٹرویو میں جارج فرنانڈیز نے چینی ’’موتیوں کی لڑی‘‘ کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کی جو ہندوستان کے اطراف پھیلی ہوئی ہے۔ مغرب میں گواڈر سے مشرق میں جزائز کوکو تک جس کی وجہ سے یہ دونوں بحرہند میں دفاعی طور پر اہم مقامات ہیں جارج کو یقین تھا کہ یہ گلوبند بعد میں پھندہ بن جائے گا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ان کی بات درست ہے لیکن حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ وہ غلط بھی نہ ہوں۔ میں اس مشکوک صورتحال میں زور دینا چاہتا ہوں، عدم اعتماد نہیں تو بیجنگ کے ارادے مشکوک ہیں۔ جارج فرنانڈیز چینیوں کے بارے میں فکرمند تھے۔ ان کی ہمدردیاں ملک کے حزب اختلاف کے ساتھ تھیں۔ چنانچہ انہوں نے تبت کے طلبہ کو گلے لگایا جن میں سے بیشتر پہلے ہی سے مقیم تھے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جبکہ وہ وزیر دفاع بھی نہیں بنے تھے بلکہ مستقل طور پر دائیں بازو کے ساتھ 6 سال تک عہدہ سنبھالے ہوئے تھے اور شاید اس کے بعد بھی طویل عرصہ تک اسی عہدہ پر برقرار رہتے۔

اب ہم دیگر بحرانوں کی بات کریں گے۔ جو صدمہ ہمیں ہوا وہ تارکین وطن مزدوروں کی وجہ سے ہوا جو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے وطن واپس ہو رہے تھے اور حکومت کو ان کی کوئی فکر نہیں تھی، ایسا ہرگز نہیں ہوتا اگر جارج آج بھی وزیر ہوتے۔ ان کی سیاسی فکر میں جو بھی کوتاہیاں تھیں اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ بہت کم تھیں۔ ان کی اپنی ایک آواز تھی جو ناانصافی کا سامنا ہونے پر بہت کم خاموش رہتی تھی۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں سکھوں اور 1990 کی دہائی میں کشمیریوں کے بارے میں آواز اٹھائی تھی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں تارکین وطن مزدوروں کو ان کے گھروں کے قریب منتقل کرنے کے بارے میں دو رائے نہیں ہوں گی۔ اگر جارج زندہ ہوتے تو وہ ایک عمر رسیدہ شخص ہوتے یا پھر بیمار شخص ہوتے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی بولنے کی صلاحیت اس کا شکار نہیں ہوسکتی تھی۔ انہوں نے جدوجہد کی ہوتی اور اپنے نقاط نظر واضح کردیتے۔ ان کے لئے خاموش رہنا ناممکن تھا۔

درحقیقت ہمیں چین کی حد تک محدود نہیں رہنا چاہئے، بلکہ تارکین وطن کے سانحہ پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ممکن ہے کہ جارج شہریت (ترمیمی) قانون کی بھی مخالف کرتے جس طریقہ سے مسلمانوں کے ساتھ پولیس نے دہلی فسادات کے دوران رویہ اختیار کیا ہے اور دانستہ طور پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کی رائے کو خاموش کیا گیا، وہ اس کے خلاف احتجاج ضرور کرتے۔ مجھے اعتراف ہے کہ اس وقت تک اے بی واجپائی حکومت ان کا ساتھ دیتی۔ وہ باغی نہیں تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ 1960 کی دہائی میں اور 70 کی دہائی میں ان کا رویہ ایسا نہیں تھا لیکن وہ دونوں انتظامیوں میں شامل نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے کپڑے خود ہی دھو ڈھالے۔ ان کا مکان کرشنا مینن مارگ پر تھا اس کی حفاظت کے لئے کوئی پھاٹک موجود نہیں تھا۔ بعد ازاں پاکستان کے ہائی کمشنر اشرف قاضی تھے جنہیں 2002 میں ناگوار شخص قرار دیا گیا تھا۔ جارج نے انہیں عشائیہ کی دعوت دی تھی۔ ایک رات پہلے خود ان کی حکومت نے انہیں جلا وطن کردیا تھا۔
جارج نے غلطیاں کی ہیں ۔ میں اس سے انکار نہیں کرتا لیکن انہوں نے بہت کچھ کہا تھا جو درست بھی تھا۔ ان میں اس بات کی ہمت تھی کہ وہ مختلف موقف اختیار کرتے۔ ہمارے ملک کو آج اسی وجہ سے جارج جیسے انسان کی ضرورت ہے۔