!ہندو تعلیم، مسلم تعلیم

   

ہوتے ہوتے ہوگئی مجھے فہم ستم
آپ کے ہر جور پر اب مسکرا سکتا ہوں میں

!ہندو تعلیم، مسلم تعلیم
ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر مسلمانوں کو خود سے بات چیت کرنے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔ کبھی کبھی بہت اچھے تدابیر آتے ہیں۔ شعور کی گہری دنیا میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔ شعور اس لئے ضروری ہے کیوں کہ مرکز میں برسراقتدار سیاسی طاقتیں اپنے دیرینہ ایجنڈہ کو ہندوستانی معاشرہ، عوامی زندگیوں اور ذہنوں پر اس قدر مسلط کررہا ہے کہ اب ہر وہ شہری جو مسلمانوں کے خلاف رائے رکھتا ہے، دل کھول کر نفرت کرنے کے ماحول کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں سنسکرت کے اسسٹنٹ پروفیسر کے خلاف طلباء کے احتجاج سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ہندوستانی شہریوں کے ذہنوں کو موڑنے میں برسراقتدار سیاسی طاقتیں کس قدر تیزی سے کامیاب ہورہی ہے۔ 15 روز کے احتجاج کے بعد بنارس ہندو یونیورسٹی کے احتجاجی طلباء نے انتظامیہ کے کئی تیقنات کے بعد ہڑتال ختم کردی۔ ایک مسلم کو سنسکرت کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تقرر کرنے کے خلاف طلباء کا احتجاج افسوسناک ہے۔ اس طرح کے احتجاج کو اکثر و بیشر شہری سیاسی فتح کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو سیکولر اور امن پسند انسان دوست لوگ احتجاجی طلباء کی حرکتوں پر تنقید کرتے ہوئے ملک کے بدلتے حالات پر افسوس کررہے ہیں۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے سنسکرت دھرم وگنان ڈپارٹمنٹ کے طلباء نے اپنے پروفیسر ڈاکٹر فیروز خاں کے نفرت کے خلاف اس لئے احتجاج کیا تھا کہ وہ ایک مسلمان ہیں اور پروفیسر ہونے کے اہل نہیں ہیں۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے احتجاجی طلباء کی شاید تربیت کم عمری سے ہی اسلام سے نفرت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ان طلباء کے ذہنوں کو زہرآلود کردیا گیا ہے۔ حکومت پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ کیلئے یہ لمحہ فکر ہے۔ ڈاکٹر فیروز خاں کا تقرر باقاعدہ میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ تقررات کیلئے جن 10 امیدواروں سے انٹرویوز لئے گئے ان میں 9 امیدوار ہندو تھے اور ان تمام 9 امیدواروں نے 0.2 فیصد نشان حاصل کئے جبکہ ڈاکٹر فیروز خاں نے 10 میں سے 10 نشان حاصل کرکے سنسکرت پڑھانے کیلئے اہل قرار دیئے گئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو اپنے فیصلہ پر فخر ہے اور اس تقرر کو درست قرار دے دیا ہے۔ انتظامیہ نے احتجاجی طلباء کو اپنی ہڑتال ختم کرنے کا مشورہ دے کر تعلیم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کو ناکام بنایا۔ یہ ایک اچھا عمل سامنے آیا ہے۔ کسی کو بھی مذہب، ذات یا نسل کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرنے یا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہونا چاہئے کہ کس کو کیا درس دینا ہے۔ دراصل احتجاجی طلباء نے اس معاشرہ کے اس گوشے کی نمائندگی کی جہاں صرف نفرت کا درس دیا جارہا ہے۔ اس معاشرہ کے سیکولر ہندوؤں کیلئے یہ قابل فخر بات ہونی چاہئے۔ ایک مسلم نے سنسکرت میں صلاحیت پیدا کرکے ان کے درمیان درس دینے کی خوبیاں پیدا کرلی ہیں۔ تعلیم کو کسی ایک مذہب کیلئے مخصوص کرنے والوں نے ہندوازم کی توہین کی ہے۔ ہندوازم میں مدرس یا گرو کا کیا مقام ہے اس سے یہ ناواقف ہیں۔ کوئی بھی مذہب مدرس کی بے حرمتی کرنے کا درس نہیں دیتا۔ ہر کسی کو کسی بھی زبان میں پڑھنے اور پڑھانے کا حق حاصل ہے۔ کیرالا کی ایک برہمن خاتون گوپالیکا انتاراجنم نے کیرالا میں تقریباً 30 سال تک عربی زبانکی تدریس کے بعد وظیفہ پر سبکدوش ہوئی ہیں۔ کیرالا کی اس خاتون کے جذبات و خیالات کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہندو برہمن ہونے کے باوجود خاتون برسوں اپنے مسلم طلباء کو عربی تعلیم کا درس دیا۔ اس طرح تعلیم کا کوئی مذہب نہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ کو نفرت اور فرقہ پرستانہ نظریہ سے آلودہ کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں اور سیکولر عوام کو کمربستہ ہوجانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے نبض شناس عوام ہی اس ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے سے بچا سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے ہم خیال سیکولر ہندوستانیوں کے ساتھ مل کر تقسیم ہند سے قبل کی نفرت انگیز نعروں جیسے ہندوپانی، مسلمان پانی کی طرح اب ہندو تعلیم، مسلمان تعلیم جیسے اٹھائے جانے والے امکانی نعروں کو ناکام بنانے کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم اسرائیل نتن یاہو پر فردجرم
داغدار سیاستدانوں اور حکمرانوں کا دور چل پڑا ہے۔ عالمی سطح پر یہ لعنت پھیل چکی ہیکہ ہزار برائیوں اور خرابیوں کے باوجود اقتدار پر فائز افراد خود کو پاکباز سمجھ کر حکومت کرنے کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ وزیراعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو بھی ایسے ہی سیاستدانوں میں شمار ہورہے ہیں۔ ان پر رشوت خوری خیانت کرنے اور دھوکہ دینے کے الزام کے بعد عدالت نے فردجرم عائد کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود نتن یاہو نے اپنے خلاف الزامات کے باوجود اقتدار پر رہنے کا عزم ظاہر کیا۔ اعتماد شکنی، دھوکہ دہی اور عوام کے پیسے کو کئی حیلے بہانوں سے لوٹ لینے کے الزام اور فردجرم عائد ہونے کے بعد بھی اگر کوئی لیڈر حکمرانی کو اپنا حق سمجھ لے تو عوام ہی اسے سبق سکھائیں گے۔ حالیہ مہینوں میں اسرائیل میں دو مرتبہ انتخابات ہوچکے ہیں لیکن عوام کی منقسم رائے کی وجہ سے اقتدار پر مضبوط گرفت حاصل نہیں ہوسکی اگر وزارت عظمیٰ کے بارے میں کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہوسکا تو ایک سال کے اندر اسرائیل میں تیسری مرتبہ رائے دہی ہوگی۔ اسرائیلی عوام نے شدت پسند قیادت اور اعتدال پسند سیاستدانوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں جو کوتاہی کی ہے اس کے نتیجہ میں اسرائیل کو ایک بدعنوان قیادت کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اسرائیل میں ازخود حالات تباہی کی طرف جارہے ہیں تو اس سال کے ختم تک حکومت کی تشکیل ممکن نہیں ہوگی۔ اسرائیل کی سپریم کورٹ نے اس سے قبل فیصلہ دے چکی تھی کہ اگر کابینہ کے کسی وزیر پر جرم کا الزام عائد ہوتو اسے ازخود استعفیٰ دینا چاہئے ورنہ انہیں ہٹا دیا جانا چاہئے۔ اب جبکہ وزیراعظم نتن یاہو پر فردجرم عائد ہوا ہے تو وہ ازخود ہٹ جائیں گے یا انہیں ہٹادیا جائے گا یہ اسرائیل کے قانون و انصاف کیلئے آزمائش ہوگی۔