ہندی کا تسلط ‘ خود بی جے پی کیلئے پریشان کن

   

اب زمانہ نہیں رہا اصولوں کا
تم بھی بہتی ہوا کے ساتھ چلو
ہندی کا تسلط ‘ خود بی جے پی کیلئے پریشان کن
جس وقت سے بی جے پی صدر و مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہندی زبان کو ملک کی مشترکہ زبان بنانے کی بات کہی ہے اس وقت سے کئی ریاستوں میں بے چینی اور عدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ جنوب کی ریاستوں میں عموما عوام ہی میں ناراضگی پیدا ہوگئی ہے اور سیاسی جماعتیں بھی اس پر مخالفانہ رائے کا اظہار کرنے لگی ہیں۔ ٹاملناڈو میں سب سے زیادہ مخالفت ہو رہی ہے ۔ تلگو ریاستوں کے عوام میں بھی اسی طرح کے جذبات و احساسات پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کی رائے کیرالا اور کرناٹک میں پائی جاتی ہے ۔ اسی طرح کے جذبات بنگال و آسام میں بھی پائے جاتے ہیں اور عوام میں بے چینی کی کیفیت کا سیاسی جماعتوں کی جانب سے استحصال کیا جا رہا ہے ۔ جہاں تک علاقائی جماعتوں کا سوال ہے ان کیلئے یہ انتہائی اہمیت کا مسئلہ ہے کیونکہ وہ ہر ریاست میں اپنی اپنی طاقت رکھتے ہیںاور علاقائی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اس کیلئے یہ مسئلہ زیادہ پریشان کن ہوسکتا ہے کیونکہ کئی ریاستوں میں جہاں بی جے پی کا وجود کمزور ہے علاقائی زبانوں کو اہمیت دی جاتی ہے اور انہیں زبانوں کے سہارے بی جے پی کو عوام تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملی ہے ۔ خاص طور پر بنگال اور کیرالا میں بی جے پی اپنے لئے وسعت کے منصوبے بنا رہی ہے اور ان دو ریاستوں میں بی جے پی کیلئے علاقائی زبان کی اہمیت کو گھٹانے کی کوششوں سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ خاص طور پر مغربی بنگال میں جہاں بنگالی زبان بولی جاتی ہے اور اس کا ایک اپنا ایک کلچر ہے اور مغربی بنگال کے عوام اس کلچر سے دور ہونا نہیں چاہتے ۔ وہ بنگالی زبان کو اپنے مذہب کی طرح اہمیت دیتے ہیں۔ اسی طرح کرناٹک میں کنڑ زبان کے علاوہ دوسری زبانوں کے تسلط کو قبول کرنے عوام تیار نہیں ہیں شائد یہی وجہ ہے کہ چیف منسٹر یدیورپا نے امیت شاہ سے ملاقات کے بعد یہ واضح کرنا ضروری سمجھا کہ وہ ریاست میں کنڑی زبان کے فروغ کیلئے پابند ہیں۔ علاوہ ازیں اب مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںاور وہاں بھی مراٹھی زبان کا مسئلہ ہے ۔
مہاراشٹرا میں تو یہ احتجاج بھی چلا تھا کہ جو کوئی مراٹھی نہیں بول سکتا اسے مہاراشٹرا سے چلے جانا چاہئے ۔ ریاست کے عوام بھی مراٹھی زبان کے تہذیبی ورثہ کی حفاظت کیلئے سرگرم رہتے ہیں۔ ممبئی شہر ایک ایسا ہے جہاں ہندوستان کی تقریبا تمام زبانیں بولی جاتی ہیں اور وہ ایک کاسمو پولیٹن شہر ہے ۔ تاہم ساری ریاست میں مراٹھی زبان سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ اسی طرح آسام میں مقامی زبان ہے ۔ شمال مشرق کی دوسری ریاستوں میں مقامی زبانیں ہیں۔ ایک تجزیہ کے مطابق ہندوستان بھر کی تمام ریاستوں اور یہاں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں کا تجزیہ کیا جائے تو تقریبا 65 فیصد ہندوستانی عوام علاقائی یا دوسری زبانیں بولتے اور سمجھتے ہیں اور انہیں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں تک ہندی کا سوال ہے ‘ یقینی طور پر یہ ہماری سرکاری زبان ہے اور عالمی سطح پر ہندی سے ہماری شناخت ہوسکتی ہے لیکن اندرون ملک ہمیں تمام زبانوں کا گلدستہ حسب روایت سجائے رکھنا چاہئے ۔ کسی ایک زبان کو مسلط کرنے کی کوششیں اگر ہوتی ہیں تو اس سے عوام میں جو بے چینی پیدا ہوئی ہے وہ زیادہ شدت اختیار کرسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ ملک میں جتنی بھی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں وہ بھی اتنی ہی ہندوستانی ہیں جتنی ہندی ہے ۔ کسی بھی دوسری زبان کو بیرونی ملک کی زبان نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ تمام زبانوں نے ہندوستان ہی میں فروغ پایا ہے ۔
خاص طور پر بی جے پی کو بنگال اور مہاراشٹرا میں فوری طور پر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ بنگال کی مقامی یونٹ ہندی زبان پر مرکز کے اصرار کی کھلے عام تائید نہیں کرپا رہی ہے کیونکہ اسے بنگالی عوام کی ناراضگی کے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں۔ اسی طرح مہاراشٹرا میں آئندہ مہینے ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے ۔ بی جے پی حکومت بھی ہندی پر مرکز کے موقف کی تائید نہیں کرپائے گی اور اگر اپوزیشن جماعتوں نے اس کا انتخابی مہم میں استحصال کیا تو بی جے پی کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ بحیثیت مجموعی ہندی کے تسلط کی کوششوں میں زیادہ مشکلات بی جے پی ہی کو پیش آسکتی ہیں۔