ہندی 25% ہندوستانیوں کی مادری زبان

   

رام پنیانی

مودی ۔ 2 کافی طاقتور حکومت کے طور اُبھر آئی ہے۔ اس کے پاس نہ صرف عددی اکثریت ہے؛ بلکہ اس کے سامنے کمزور اور منقسم اپوزیشن ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ وہ عوام کی آراء نظرانداز کررہی ہے اور ہندو قوم پرستی کے آر ایس ایس۔ بی جے پی ایجنڈے کو کھلے طور پر مسلط کررہی ہے۔ ایک طرف اس نے تین طلاق پر امتناع عائد کرتے ہوئے قانون لایا ہے، دوسری طرف نے آرٹیکل 370 منسوخ کردیا۔ ان آسان کامیابیوں سے حوصلہ پاکر اب وہ لگتا ہے یکے بعد دیگر اپنے دیگر ایجنڈے کو آشکار کررہی ہے۔
’ہندی ڈے‘ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے صدر بی جے پی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہندو بطور قومی زبان کے موضوع پر اپنی پارٹی کی سوچ کا اظہار کیا۔ مسٹر شاہ نے کہا کہ ایک زبان کا ہونا ضروری ہے جو دنیا میں ہندوستان کی نمائندگی کرسکے… اور چونکہ ہندی وسیع طور پر بولی جاتی ہے، اس لئے ہندوستان کو ’متحد‘ رکھنے والی زبان ہوسکتی ہے۔ ہمارے قدیم فلسفہ، ہماری ثقافت اور تحریک آزادی کی یادوں کو محفوظ رکھنے کیلئے کم از کم ایک زبان موجود ہے جو ہندی ہے جسے قوم جانتی ہے۔ اگر ہندی کو ہماری جدوجہد آزادی سے ہٹا دیا جائے تو جدوجہد کی ’جان‘ چلی جائے گی۔ انھوں نے اپنے نکتہ پر زور دینے کیلئے ٹوئٹ کیا: ’’میں عوام سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی مقامی زبانوں کو (ضرور) فروغ دیں لیکن ہندی کو بھی استعمال کریں تاکہ ایک زبان کا باپو اور سردار پٹیل کا خواب پورا ہوسکے۔‘‘
اس بیان کے پیچھے ارادے کچھ پوشیدہ نہیں، ویسے زبان نہایت واضح ہے۔ اصل فکر یہ ہے کہ انگلش اور علاقائی زبانوں کو حاشیہ پر کردیا جائے اور ہر طرف ہندی کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ مسٹر شاہ کے ارادوں کو بھانپ کر جنوبی ہندوستان کے کئی قائدین ایم کے اسٹالن، ششی تھرور، پنرائی وجین اور کمل ہاسن نے اُن کے بیان کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ ان تمام نے اسے ہندی کو ان ریاستوں پر مسلط کرنے کی کوشش بتایا۔ وجین نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعے اپنا ردعمل صریح طور پر پیش کیا، ’’وہ زبان (ہندی) ہندوستانیوں کی اکثریت کی مادری زبان نہیں ہے۔ ہندی کو ان پر مسلط کرنے کا اقدام انھیں غلام بنانے کے مترادف ہے۔‘‘
کمل ہاسن نے ایک ویڈیو میں ستونِ اشوکا اور دیباچہ کے پہلو میں کھڑے ہوکر کہا کہ ہندوستان 1950ء میں عوام سے اس وعدے کے ساتھ جمہوریہ بنا کہ ان کی زبان اور ان کے کلچر کا تحفظ کیا جائے گا۔ کوئی شاہ، سلطان یا سمراٹ اس وعدے کو یکایک توڑ نہیں سکتا ہے۔ ہم تمام زبانوں کا احترام کرتے ہیں لیکن ہماری مادری زبان ہمیشہ ٹامل رہے گی… ہماری زبان کیلئے جدوجہد توضیحی طور پر زیادہ بڑی رہے گی۔
اس طرح ہمارا ملک زبان، ثقافت، مذہب اور نسل سے متعلق تمام امور میں نہایت متنوع رہا ہے۔ تحریک آزادی اس تنوع کی حقیقی عکاس ہے۔ عوام یہ تمام فرق سے قطع نظر واحد برادری کے طور پر کھڑے ہوئے، تنوع اور مختلف مذاہب اور بالخصوص زبانوں کی وجہ سے ملنے والی مالامال میراث کا احترام کئے۔ تمام زبانوں میں ہندوستان کی واحد قوم بننے کی امنگوں کا اظہار کیا گیا۔ ہندی اور اس کے ساتھ دیگر علاقائی زبانوں کو ہندوستانی سماج کی عکاس بننے کا موقع حاصل ہوا۔ اگرچہ انگلش کو بنیادی طور پر انتظامی زبان کے طور پر متعارف کیا گیا، لیکن جلد ہی یہ انڈین کلچر کا حصہ بن گئی، اور یہ تمام ہندوستانی سماج اور امنگوں کے عکاس بھی بنے۔برطانوی غلامی سے آزادی کیلئے قومی تحریک جس میں تمام زبانوں کی عکاسی ہوئی، اس کے برخلاف فرقہ پرست قوتوں کے مختلف ارادے رہے۔ مسلم فرقہ پرستی نے یہ نعرہ پیش کیا، ’’اردو، مسلم، پاکستان‘‘، اور متوازی خطوط پر ہندو قوم پرستی نے یہ نعرہ بلند کیا، ’’ہندی، ہندو، ہندوستان‘‘۔ جب پاکستان مسلم اکثریتی علاقوں (مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان) میں تشکیل پایا، ان کی زبانیں مختلف تھیں۔ مسلم لیگ کا اصرار کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان ہونا چاہئے، اس نے مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علحدگی کا احساس پیدا کیا، اور آخرکار بنگلہ دیش بنا جس کی سرکاری زبان بنگالی ہوئی۔دلچسپ بات ہے کہ دستور کے معماروں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’’ہندوستانی چاہے دیوناگری میں طرزتحریر ہو یا فارسی طرز ہو، شہری کی پسند پر منحصر ہے، اور قومی زبان قرار پائے گی، یونین کی پہلی سرکاری زبان رہے گی۔ انگلش دوسری سرکاری زبان اتنی مدت تک رہے گی جس کا تعین یونین کی طرف سے بذریعہ قانون ہوسکتا ہے‘‘۔ سہ لسانی فارمولا نے انگریزی، ہندی اور علاقائی زبان کو تعلیم کا نصاب تجویز کیا۔ 1960ء کے دہے میں کوشش ہوئی تھی کہ ہندی کو جنوبی ریاستوں میں متعارف کیا جائے، اور یہ ہر جگہ زبردست احتجاجوں کا موجب بنی، جس کے نتیجے میں اس پالیسی کو روک دیا گیا۔ دوبارہ زیرغور نئی ایجوکیشن پالیسی ہندی کو لازمی بنانا چاہتی ہے۔یہ بحث بدستور جاری ہے کہ ہندی ہندوستانیوں کی اکثریت کی زبان ہے۔ تازہ ترین ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ یہ 25% ہندوستانیوں کی مادری زبان ہے اور 44% لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ہندی جانتے ہیں۔ نئی ایجوکیشن پالیسی کے اس حصہ کی سخت مخالفت نے دوبارہ ہندی کو لازمی بنانے سے روک دیا ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ 1940ء کے دہے میں جب ٹاملناڈو (اُس وقت کا مدراس) میں کانگریس حکومت اقتدار پر آئی، وہاں ہندی کو متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔ اس پر مزاحمت پیریار راما سامی نائیکر نے شروع کی اور نعرہ لگایا ’ٹاملناڈو برائے ٹامل برادری‘ اور ہندی کو ڈراویڈی کلچر پر اثر انداز ہونے کیلئے آریائی لوگوں کا آلہ کار قرار دیا۔
زبان کے پیچیدہ مسئلہ سے کوئی کس طرح نمٹ سکتا ہے۔ ملک میں انگریزی، ہندی اور علاقائی زبانوں کا اچھا نظم چل رہا ہے جسے مختلف سطحوں پر مختلف انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔ ہندی کو جنوبی ریاستوں تک پھیلانے کی دانستہ کوششیں ہوتی رہی ہیں، لیکن ہندی بولنے والی ریاستوں میں علاقائی زبانوں کو مقبول بنانے کے کوئی متوازی اقدامات نہیں ہوتے۔ یہی کہنا پڑے گا کہ ہندی نے یقینا جنوبی اور ملک بھر کی دیگر ریاستوں میں پھیلاؤ کے معاملے میں کافی پیشرفت کی ہے لیکن یہ کام اعلیٰ قیادت کی طرف سے زور و زبردستی والے اقدامات کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ ہندی فلموں، اور مقبول عام ہندی سیریئلس کے پھیلاؤ کے علاوہ ہندی کو فروغ دینے والی تنظیموں کی کوششوں سے ہوا ہے۔
اردو بطور قومی زبان کے مسئلہ نے پاکستان کی تقسیم میں حصہ ادا کیا۔ اس کے برعکس ہندوستان نے ابھی تک زبانوں کے امور میں غیرمعمولی توازن برقرار رکھا ہے۔ ریاستوں کی لسانی خطوط پر تنظیم جدید نے ہمیں منفرد طاقت بخشی ہے۔ اب جبکہ امیت شاہ نے تمام معاملوں بشمول زبان کے امور میں ہم نوعی یا ہم رنگی کو مسلط کرنے کے اپنے ایجنڈے کو آشکار کیا ہے، یہی امید کرسکتے ہیں کہ موجودہ دانشمندی غالب آئے گی اور تمام غیرہندی بولنے والی ریاستوں کے احساسات اور امنگوں کو قومی زبان پالیسی طے کرنے میں مناسب اہمیت دی جائے گی۔
ram.puniyani@gmail.com