ہوا سے جنگ کا اعلان کرنے نکلا ہے

,

   

نریندر مودی … سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
اپوزیشن سے خوفزدہ … 2047 تک کا خواب

رشیدالدین
’’سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں‘‘ وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعہ سے اعلان کردیا کہ 15 اگست 2024 ء کو وہ دوبارہ قوم سے خطاب کریں گے۔ اتنا ہی نہیں 2047 ء تک کا ایجنڈہ پیش کرتے ہوئے مودی نے ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا۔ عام طورپر سیاستداں اور سیاسی مبصرین آئندہ کے بارے میں پیش قیاسی کرتے ہیں لیکن نریندر مودی نے تو اپنا فیصلہ سنادیا کہ 2024 ء میں تیسری مرتبہ وزیراعظم ہوں گے ۔ دراصل دو مرتبہ کے اقتدار نے مودی کو مغرور بنادیا ہے اور وہ کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں۔ دنیا نے ایسے کئی بادشاہوں اور شہنشاہوں کو دیکھا جن کو کبھی زوال کا گمان بھی نہیں تھا لیکن وہ تاریخ کے صفحات میں گم ہوگئے۔ جن کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ، آج وہ دنیا کے سامنے زوال کی علامت بن چکے ہیں۔ دوبارہ اقتدار کی خواہش یا امید رکھنا کوئی عیب نہیں ہے لیکن خواہش جب فرعونیت میں تبدیل ہوجائے تو اس کا مطلب قدرت سے ٹکراؤ ہے۔ قدرت جب گرفت پر آجائے تو کوئی طاقت بچا نہیں سکتی۔ مودی نے مغل حکمرانوں کی یادگار لال قلعہ سے دسویں مرتبہ خطاب کیا۔ بی جے پی اور مودی کو جن مسلمانوں سے نفرت ہے ، ان کی یادگار سے خطاب کرنے کیلئے مجبور ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہر سال مسلمان ترنگا کو اپنے سر کا تاج بناکر اس کی عظمت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ مودی ہو یا کوئی اور یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کی تقریب لال قلعہ کے بجائے کسی اور مقام پر کر کے دکھائیں۔ وزیراعظم نے لال قلعہ سے 2024 ء عام انتخابات کا بگل بجادیا ہے اور ان کی تقریر الیکشن بھاشن کے سوا کچھ نہیں تھی۔ پارلیمنٹ کو مودی نے پہلے ہی سیاسی پلیٹ فارم میں تبدیل کردیا ہے لیکن کم از کم لال قلعہ کو بخش دیتے ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شائد ہی کسی وزیراعظم نے لال قلعہ سے اس قدر سیاسی تقریر کی ہو۔ مودی نے اپنے عزائم کو واضح کردیا کہ چاہے کچھ ہوجائے لیکن اقتدار ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائیں۔ نریندر مودی کا بھاشن گھسے پٹے گرامافون ریکارڈ کے سواء کچھ نہیں تھا ۔ ہر سال چند مخصوص جملوں کے ذریعہ اپوزیشن کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش۔ کرپشن ، خاندانی سیاست اور خوشامد پسندی کو بار بار دہراتے ہوئے کانگریس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اقتدار بھلے ہی تبدیل نہ ہو لیکن مودی کو کم از کم اپنی تقریر میں تبدیلی لانی چاہئے ۔ ہر سال 15 اگست کو قوم کو انتظار ہوتا ہے کہ وزیراعظم ملک کیلئے کیا خوشخبری سنائیں گے۔ ملک کے سلگتے ہوئے مسائل پر قوم کی کیا رہنمائی ہوگی لیکن مودی کے پیش نظر صرف الیکشن اور اقتدار ہے ۔ گزشتہ تین ماہ سے منی پور جل رہا ہے ۔ ہریانہ میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی ۔ لو جہاد اور دوسرے نعرے کے ذریعہ بے قصور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چل رہے ہیں۔ فرقہ پرستی کا زہر سیکوریٹی فورسس میں سرائیت کرچکا ہے جس کا مظاہرہ جئے پور ۔ ممبئی ٹرین میں دیکھنے کو ملا۔ ریلوے پروٹیکشن فورس کے ایک جوان نے تین مسلمانوں پر گولی چلانے کے بعد اور بھی شکار تلاش کئے لیکن مسافرین کے شور و غل نے اسے مزید کارروائی سے باز رکھا۔ تحقیقات میں یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا کہ پولیس جوان کو لفظ مسلم سے نفرت ہے ۔ مودی اور یوگی کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہوئے دہشت گرد جوان نے واضح کردیا کہ وہ دراصل ذہن سازی کا پراڈکٹ ہے۔ ملک نفرت اور تعصب کی آگ میں جل رہا ہے لیکن نریندر مودی نے لال قلعہ سے آگ بجھانے ایک جملہ بھی ادا نہیں کیا ۔ ہمیشہ کی طرح ملک پر زعفرانی ایجنڈہ مسلط کرتے ہوئے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ دوسری میعاد میں ملک کو ہندو راشٹر کے راستہ پر گامزن کردیا گیا ۔ بابری مسجد کے بعد اب گیان واپی مسجد پر بری نظریں ہیں جبکہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد عبادتگاہوں کے تحفظ کیلئے قانون سازی کی گئی ۔ کاشی اور متھرا کے ایجنڈہ پر سوار ہوکر نریندر مودی 2024 ء میں کامیابی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ چناؤ سے عین قبل رام مندر کے افتتاح کے ذریعہ ہندوؤں کے ووٹ حاصل کئے جائیں گے۔ اب تو وزیراعظم کے معاشی صلاح کار نے موجودہ دستور کو منسوخ کرتے ہوئے نئے دستور کی تیاری کا مشورہ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ مودی کے اشارہ کے بغیر اس طرح کا بیان دینے کا مقصد عوام کے ذہن کو ٹٹولنا ہے۔ دستور میں لفظ سیکولرازم بی جے پی کو کھٹک رہا ہے ۔ ہر شہری کو اظہار خیال ، اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس کی تبلیغ کی اجازت اور مسلمانوں کو تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں دستوری حقوق کو ختم کرنے کی سازش ہے۔
نریندر مودی لال قلعہ سے بظاہر جذباتی انداز میں خطاب کر رہے تھے لیکن ان کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ وہ اپوزیشن سے خوفزدہ ہیں۔ اقتدار سے محرومی کا خوف صاف طور پر جھلک رہا تھا ۔ نریندر مودی کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر ہے کہ اپوزیشن اتحاد نے راہول گاندھی کو اپنا قائد تسلیم کرلیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے راہول گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے ذریعہ راہول گاندھی نہ صرف لوک سبھا میں داخل ہوئے بلکہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد پر تقریر کرتے ہوئے مودی کو کھری کھری سنائی۔ بی جے پی اور نریندر مودی کو خطرہ صرف گاندھی خاندان سے ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر اسٹیج سے پریوار واد اور بھائی بھتیجہ واد کے نام پر کانگریس کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ ’’ چھلنی نے سوپ سے کہا تجھ میں چھید ہے‘‘ نریندر مودی کو پریوار واد کے مسئلہ پر کانگریس کو نشانہ بنانے سے پہلے خود اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ دراصل مودی کا کوئی پریوار نہیں لہذا پارٹی اور حکومت میں ان کا کوئی رشتہ نہیں آسکتا۔ جس وقت مودی پریوار واد کی بات کر رہے تھے ، لال قلعہ کے سامعین میں امیت شاہ ، راج ناتھ سنگھ ، انوراگ ٹھاکر ، پیوش گوئل ، کرن رجیجو ، جوتیرادتیہ سندھیا اور دیگر کئی قائدین اپنا منہ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ بی جے پی میں ان کے علاوہ اور بھی کئی ایسے قائدین ہیں جو خاندان وراثت کے طور پر اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام قائدین اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیں گے؟ جمہوریت میں عوام کی حکومت ، عوام کے لئے حکومت اور عوام کی جانب سے منتخب کردہ حکومت کا نعرہ لگایا جاتا ہے لیکن مودی نے خاندان کی پارٹی ، خاندان کیلئے پارٹی اور خاندان کی بنائی ہوئی پارٹی کا نعرہ لگاکر کانگریس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پریوار واد کا نعرہ خود بی جے پی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بی جے پی میں خاندانی وراثت کے کئی نمائندے ہیں، اس کے علاوہ این ڈی اے کی بیشتر حلیف جماعتوں کے قائدین پریوار واد کی مثال ہیں۔ مودی چونکہ خود پریوار سے محروم ہیں ، وہ ملک کے لئے قربانی کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتے۔ مودی نے ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ دیا اور ملک کی خواتین کے بارے میں ہمیشہ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں لیکن خود انہوں نے اپنی شریک حیات کے ساتھ کیا سلوک کیا دنیا جانتی ہے۔ پتہ نہیں مودی کے بیانات سن کر جشودھا بین پر کیا گزرتی ہوگی لیکن بی جے پی کی مہیلا قائدین کو بھی ان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔ وزیراعظم کی تائید میں ہمیشہ پیش پیش رہنے والی سمرتی ایرانی کو کم از کم ایک مرتبہ جشودھا بین کا غم اور آپ بیتی سننی چاہئے ۔ گاندھی خاندان پر تنقید سے قبل ملک کیلئے اس خاندان کی قربانیوں کو یاد کرنا ہوگا۔ ایک وزیراعظم اور ایک سابق وزیراعظم نے ملک پر اپنی جان نچھاور کی اور ان کے جانشین کو پریوار واد سے جوڑنا انتہائی شرمناک ہے۔ مودی کو نہرو خاندان سے اس قدر خوف ہے کہ انہوں نے نہرو میموریل میوزیم کا نام بھی تبدیل کردیا ۔ کسی ادارہ کے نام سے نہرو کا نام ہٹانے سے اہمیت میں کوئی کمی نہیں آئے گی کیونکہ کوئی بھی شخصیت اپنے کارناموں کے سبب عوام میں زندہ رہتی ہے۔ مودی نے لال قلعہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سیکولرازم کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ وہ قوم کو فرقہ پرستی کے خلاف جدوجہد کی تلقین کرتے۔ دلچسپ بات یہ دیکھی گئی کہ مودی نے اپنے خطاب میں بھائیو ، بہنو کے بجائے ’’میرے پریوار جن‘‘ سے قوم کو خطاب کیا۔ کہیں وہ ساری قوم کو سنگھ پریوار کا حصہ تو نہیں سمجھ رہے ہیں ؟سیاسی مبصرین نے لال قلعہ سے وزیراعظم کے خطاب کو مایوس کن قرار دیا۔ ندیم شاد نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہوا سے جنگ کا اعلان کرنے نکلا ہے
چراغ اپنا ہی نقصان کرنے نکلا ہے