ہوا سے لڑنے کا حوصلہ ہے یہی بہت ہے

,

   

انڈیا اتحاد …راہول اور پرینکا اصل طاقت
رام مندر … لوک سبھا چناؤ کی تیاری

رشیدالدین
’’اتحاد سے پہلے انتشار‘‘ کامیابی اور خاص طور پر 2024 عام انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے لئے انڈیا الائنس کے بیانر تلے اپوزیشن پارٹیوں کو متحد کرنے کی مساعی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ابھی تو ابتداء ہے لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار اپوزیشن سے خوفزدہ ہے۔ اپوزیشن اتحاد کو کمزور کرنے اور پھوٹ کیلئے طرح طرح سے سازش کی جارہی ہے ۔ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی اور چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے صدر کانگریس ملکارجن کھرگے کو عام چناؤ میں وزیراعظم کے طور پر پروجکٹ کرنے کی تجویز پیش کی ہے ۔ لوک سبھا الیکشن کا ابھی اعلان نہیں ہوا اور نہ ہی اپوزیشن نے مفاہمت کو قطعیت دی لیکن ابھی سے وزیراعظم کے امیدوار کی بات کرنا کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انڈیا الائنس کو کمزور کرنے کیلئے بی جے پی متحرک ہوچکی ہے ۔ یوں تو وزارت عظمیٰ کے لئے شرد پوار ، ممتا بنرجی اور کجریوال کے نام کی تجویز پہلے بھی پیش کی جاچکی ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں مودی حکومت کی آمریت اور جبر سے عوام کو نجات دلانے کیلئے 2024 ء عام انتخابات آخری موقع ہے ۔ اگر اس موقع کو گنوا دیا گیا تو پھر نریندر مودی کو تاحیات وزیراعظم بننے سے کوئی طاقت روک نہیں پائے گی۔ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کا انتخاب آخری مرحلہ رہے گا ، جب اپوزیشن اتحاد کو کامیابی حاصل ہوگی۔ ابھی تو ہم خیال پارٹیوں میں مفاہمت اور کامن ایجنڈہ کی تیاری کا کام باقی ہے۔ ایسے میں ابھی سے ملکارجن کھرگے کے نام کی تجویز اتحاد سے زیادہ انتشار کا سبب بنے گی۔ وقفہ وقفہ سے مختلف ناموں کی تجویز سے عوام پر منفی اثر پڑے گا۔ یہ تاثر پیدا ہوگا کہ مودی کے مقابلہ کوئی مضبوط اور قابل قبول چہرہ اپوزیشن کے پاس نہیں ہے ۔ بی جے پی عوام کو یہ تاثر دے رہی ہے کہ الیکشن سے قبل اختلافات کا یہ عالم ہے تو پھر الیکشن کے بعد کیا ہوگا۔ ممتا بنرجی اور کجریوال نے یہ تجویز جان بوجھ کر پیش کی یا پھر ان کی نادانی تھی۔ ملکارجن کھرگے یقیناً کانگریس کے صدر اور سینئر ترین قائد ہیں لیکن وزارت عظمیٰ کے لئے درکار اہلیت اور کوالیٹیز ان میں نہیں ہے۔ کھرگے کی شناخت اور مقبولیت صرف کرناٹک تک محدود ہے جبکہ مودی سے مقابلہ کیلئے جو چہرہ چاہئے، وہ مودی سے زیادہ چارمنگ اور پاپولر ہونا چاہئے۔ ملکارجن کھرگے کو جن حالات میں کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا اور اصل فیصلہ کرنے والی طاقت کون ہے، اس بارے میں کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس کا تصور ادھورا ہے۔ جس طرح جے پی نڈا بی جے پی کے قومی صدر ہیں لیکن چلتی تو مودی اور امیت شاہ کی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح ملکارجن کھرگے کانگریس کا چہرہ ضرور ہیں لیکن سونیا گاندھی ، راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی اصل فیصلہ ساز اور ہائی کمان ہیں۔ کانگریس پارٹی جنوبی ہند کی دو ریاستوں تک محدود ہوچکی ہے اور ملکارجن کھرگے کو وزارت عظمیٰ کیلئے پروجکٹ کرنا نہ صرف کانگریس بلکہ انڈیا الائنس کی بدخدمتی ہوگی۔ 2014 ء میں شکست کے بعد پانچ برسوں تک کانگریس نے واپسی نہیں کی۔ 2019 ء میں مودی کو دوسری مرتبہ اقتدار ملنے کے بعد سونیا گاندھی نے راہول اور پرینکا کو میدان میں اتارا تاکہ پارٹی کو بچایا جاسکے۔ راہول گاندھی نے کنیا کماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ وہ اب پپو اور امول بے بی نہیں رہے بلکہ ایک منجھے ہوئے سیاستداں بن چکے ہیں۔ جس طرح آزمائش اور چیلنجس کی بھٹی سے گزرکر کوئی کندن بن سکتا ہے ، اسی طرح راہول گاندھی نے عوام کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور ان کی سیاسی قابلیت اور صلاحیتوں کو نکھار ملا۔ بھارت جوڑو یاترا کے تحت 4000 کیلو میٹر کے پیدل سفر نے راہول گاندھی کی مقبولیت کو چار چاند لگادیئے۔ نریندر مودی سے مقابلہ کیلئے راہول گاندھی کے ساتھ اگر کسی اور کا نام لیا جاسکتا ہے تو وہ پرینکا گاندھی ہیں۔ آنجہانی اندرا گاندھی کی کاربن کاپی پرینکا نے اپنی تقاریر کے ذریعہ بہت کم عرصہ میں مقبولیت حاصل کرلی ۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ راہول گاندھی سے زیادہ پرینکا نوجوان رائے دہندوں میں مقبول ہیں۔ ملک میں نوجوان رائے دہندوں کو غلبہ حاصل ہے اور صرف پرینکا گاندھی میں نوجوان نسل کو کانگریس اور انڈیا الائنس کے قریب لانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگر 2024 ء عام چناؤ کے لئے وزیراعظم کے چہرہ کو پیش کرنا ضروری ہو تو بھائی بہن میں سے کسی کا انتخاب کرنا چاہئے ۔ اگر ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسری شخصیت کو مودی کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا تو 2024 ء میں بی جے پی کو اقتدار کی ہیٹ ٹرک سے کوئی روک نہیں سکے گا۔ پہلے تو اپوزیشن پارٹیوں کو مفاہمت اور ایجنڈہ کو قطعیت دینی چاہئے ۔ اپوزیشن کی بعض پارٹیاں مودی کے خوف کا شکار ہیں اور یہی خوف انڈیا الائنس کے استحکام میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
بی جے پی اور سنگھ پریوار کو یقین ہو چلا ہے کہ آئندہ عام چناؤ میں کامیابی کیلئے ترقی کا ایجنڈہ کام نہیں آئے گا لہذا ہندوتوا ایجنڈہ اختیار کرتے ہوئے لوک سبھا چناؤ میں کامیابی کی تیاری ہے۔ بی جے پی کے ایجنڈہ میں شامل متنازعہ امور میں دو کی تکمیل ہوچکی ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور کشمیر سے دفعہ 370 کی برخواستگی کے بعد اب ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاری ہے۔ سنگھ پریوار نے 2026 ء تک ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ہندو راشٹر کے نشانہ کی تکمیل کیلئے لوک سبھا چناؤ میں کامیابی ضروری ہے۔ ایودھیا میں 22 جنوری کو نو تعمیر شدہ رام مندر کا افتتاح ہوگا جس میں وزیراعظم نریندر مودی کے علاوہ ملک کے تمام سرکردہ ہندوتوا قائدین کو مدعو کیا گیا ہے ۔ افتتاحی تقریب دراصل لوک سبھا چناؤ کے لئے بی جے پی کی انتخابی مہم کا آغاز ہوگا۔ ملک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں کارکنوں کو ایودھیا پہنچنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ہندوتوا طاقتیں ایودھیا کو خالص مندروں کے شہر میں تبدیل کرنے کی سازش کر رہی ہیں جس کے تحت ایودھیا سے مسلم خاندانوں کو تخلیہ کی دھمکی دی گئی ۔ یوں تو ایودھیا میں اور بھی مساجد ہیں لیکن مسلم خاندانوں کو ایودھیا سے باہر کرنے کے بعد مساجد کا وجود ختم کردیا جائے گا ۔ ویسے بھی ایودھیا سے مسلمانوں کو بیدخل کرنا آسان نہیں ہے لیکن رام مندر کے افتتاح کے موقع پر جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں کسی مسلمان کو دیکھنا پسند نہیں کریں گی۔ بابری مسجد کی اراضی کو سپریم کورٹ کے ذریعہ حاصل کیا گیا، حالانکہ مقدمہ مسلمانوں کے حق میں تھا۔ مندر کو توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر کو سپریم کورٹ نے تسلیم نہیں کیا لیکن خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مسجد کی اراضی مندر کو الاٹ کردی گئی۔ مسلمانوں نے ملک میں امن و امان اور یکجہتی کی برقراری کیلئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرلیا اور مسجد کی اراضی سے بادل ناخواستہ دستبرداری اختیار کی۔ مسلمانوں کے جذبہ خیر سگالی اور صبر کو کمزوری تصور کیا جارہا ہے۔ بابری مسجد کے بعد کاشی اور متھرا کی مساجد اور قبرستان کے سروے کے نام پر عدالت کے ذریعہ مندروں کی بحالی کی راہ میں پیشقدمی ہوچکی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ عدلیہ غیر جانبداری کے بجائے حکومت اور ہندوتوا تنظیموں کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ تحت کی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک مساجد کے معاملات میں حالیہ فیصلوں سے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ ہندوستان میں عدلیہ وہ واحد ادارہ ہے جس نے ہمیشہ انصاف کو سربلند رکھا ۔ حکومت اور نظم و نسق کے دباؤ کا عدلیہ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ سابق میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کئی فیصلے حکومتوں کے خلاف آچکے ہیں۔ 2014 ء کے بعد بی جے پی اور ہندوتوا طاقتوں نے عدلیہ پر دباؤ میں اضافہ کرتے ہوئے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ رام مندر کی افتتاحی تقریب کو لوک سبھا چناؤ کی انتخابی مہم کے آغاز کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ملک میں بی جے پی حکومت کے پاس ایسا کوئی کارنامہ نہیں جس کی بنیاد پر عوام سے ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ مودی حکومت کے زیادہ تر فیصلے عوام کے مفادات کے خلاف رہے۔ اب جبکہ ملک میں اپوزیشن عمومی طور پر کمزور دکھائی دے رہی ہے اور چھتیس گڑھ ، راجستھان ، مدھیہ پردیش کی کامیابیوں نے بی جے پی کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ رام مندر کے افتتاح کے بعد ملک میں ہندو ووٹ بینک بی جے پی کے حق میں مستحکم ہوگا اور اپوزیشن کے پاس ایسا کوئی متبادل ایجنڈہ نہیں جس کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتوں کا مقابلہ کیاجاسکے۔ راہول گاندھی ملک میں دوسرے مرحلہ کی بھارت جوڑو یاترا کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی حقیقت سے عوام کو واقف کرایا جائے۔ راہول گاندھی کی جدوجہد پر منظر بھوپالی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ہوا سے لڑنے کا حوصلہ ہے یہی بہت ہے
چراغ آندھی میں جل رہا ہے یہی بہت ہے