یوروپ اسلامو فوبیا کا شکار کیوں ہے؟

   

مولانا سید احمد ومیض ندوی
یوروپ نے اپنی نسل نو کے ذہن کو اسلام کے خلاف بغض وعناد سے بھرنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کی، چنانچہ اس کے لیے اسکولوں کے نصاب میں اسلام اور اسلامی تہذیب کے متعلق خلاف ِحقیقت مواد کو شامل رکھا گیا۔ قاہرہ یونیورسٹی میں گزشتہ دنوں یوروپ میں اسلام اور وطنیت کے مسائل پر منعقدہ ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے مصر کے مفتی ڈاکٹر علی جمعہ نے کہا تھا کہ یوروپ کے نصاب ِتعلیم میں مسلمانوں کی انتہائی بھونڈی تصویر پیش کی گئی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس منفی تصویر کو بدلا جائے جو بین الاقوامی قوانین کے بھی خلاف ہے۔ اسی طرح 11،18،19،2007ء کو مصر ہی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں یوروپ کے نصاب تعلیم میں پائے جانے والے اسلام مخالف مواد کو دور کرنے کے لیے باقاعدہ ایک کمیشن تشکیل دیا گیا۔ کمیشن نے سب سے پہلے مختلف یوروپی ممالک کے نصاب تعلیم کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ تیار کی جس میں صاف طور بتایا گیا کہ یوروپ کے اسکولی نصاب تعلیم میں اسلام کے خلاف خوب زہر افشانی کی گئی ہے اور بہت سی اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
یوروپ میں یہودی اور صہیونی تنظیموں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے جن کا یوروپی ذرائع ابلاغ، سیاسی پارٹیوں اور پارلیمنٹوں میں کافی اثر وسوخ ہے۔ حتی کہ ان صہیونی کارکنوں کے یوروپی مفکرین اور سیاسی قائدین سے گہرے روابط ہیں۔ یہ صہیونی تنظیمیں اسلام کے خلاف یوروپ کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور یوروپ میں اپنے مفادات کے تحفظ میں سرگرم رہتی ہیں۔ یوروپ میں یہودیوں کی سرگرمیوں کا آغاز اسی وقت سے ہوا جب 1948ء میں صہیونیت کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت سے آج تک یوروپ میں یہودی لابی یوروپی قائدین پر اپنا دباؤ برقرار رکھی ہوئی ہے، حتی کہ یوروپ میں موجود صہیونی لابی انتخابات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ھولو کاسٹ کا واویلا مچا کر مختلف یوروپی ملکوں سے اسرائیل کے لیے فنڈ بھی اکٹھا کرتی ہے۔صہیونی لابی کا یوروپی میڈیا پر بھی کافی کنٹرول ہے۔ چنانچہ یوروپی میڈیا اسرائیل سے متعلق خبروں اور اسرائیل کی سرگرمیوں کو کافی اہمیت دیتا ہے۔یوروپ اور اسرائیل اسلام کے خلاف کس قدر متحد ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فرانس کے سابق صدر سارکوزی جن کی ماں یہودی ہیں نے اپنے ملک میں تعلیم سے متعلق بنائی گئی منصوبہ بندی میں اس بات کا اعلان کیا کہ ہر فرانسیسی بچے کے لیے ضروری ہے کہ وہ نازی ازم کے دور میں جو یہودی بچے مظالم کا شکار ہوئے ان میں سے کم از کم کسی ایک بچہ کی داستانِ ظلم سے واقفیت حاصل کرے۔عربین یوروپین اسلامک کانفرنس کے صدر فادی ماضی نے بعض یوروپی باوثوق ذرائع کے حوالہ سے لکھا ہے کہ مجھے ایسے مخفی منصوبوں کا انکشاف ہوا جسے CIA اور موساد نے تیار کیا ہے۔ جس کے مطابق یوروپ میں مساجد ،مدارس اور دینی مراکز کو مقفل کیا جائے گا، نیز موساد نے یوروپ میں دیواروں اور عوامی مقامات پر اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی پر مشتمل جملے تحریر کرنے کا بھی منصوبہ تیار کیا ہے۔
یوروپ میں سب سے خطرناک ذہنیتجو فروغ پارہی ہے وہ اسلامی مقدسات کی بے حرمتی ہے،اسلامی مقدسات مسلمانوں کے نزدیک حد درجہ محترم ہیں ان کے احترام کے تعلق سے وہ انتہائی حساس ہیں، مغرب کو اس کا ادراک اس لیے نہیں کہ اس کے یہاں مذہبی مقدسات کی بے احترامی عام ہے۔ مغرب میں مذہبی مقدسات کی کس قدر پامالی ہوتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ڈرامہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہم جنس پرست کے طور پر پیش کیا گیا لیکن مذہبی مقدسات کا پامال کرنے والا مغربی میڈیا ہم جنس پرستوں کے خلاف کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتا، اسی طرح ھولوکاسٹ کے خلاف کچھ لکھنے کی جسارت نہیں کرتا۔اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر ناروے میں پیش آئے حالیہ واقعہ کا جائزہ لیجئے، تب پتہ چلے گا کہ یوروپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جڑیں کس قدر گہری ہیں اور اس حقیقت کا بھی علم ہو جائے گا کہ ہر تھوڑے وقفہ سے یوروپ میں شان رسالت میں گستاخی قرآن سوزی اور توہین اسلام کے واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟
گزشتہ چند سالوں کے دوران یوروپ میں اسلام سے خوف کی بیماری اپنی انتہاء کو پہونچ چکی ہے جس کے نتیجہ میں اسلام پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے، حالیہ واقعہ بھی انہی حملوں کا تسلسل ہے۔اس وقت یوروپ کی اسلام دشمنی کا مظاہرہ درج ذیل شکلوں میں ہورہا ہے:
(۱) اسلام دشمنی کے مقصد سے یوروپ کی جانب سے مختلف نعرے بلند کئے جارہے ہیں، مثلاً دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کا نعرہ، یوروپ کے لیے ہونے والی غیر قانونی ہجرت کے خلاف نعرہ، نیز اسلام کی تیز رفتار اشاعت کے سبب مغربی تہذیب وثقافت کو لاحق خطرہ کی بات۔ اسی طرح یوروپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی شرح آبادی کا مسئلہ وغیرہ۔ تازہ ترین سروے کے مطابق 2030ء میں مسلمانوں کی تعداد دوگنی ہوجائے گی۔ 2050ء تک فرانس میں مسلمانوں کا فیصد 60ہوگا۔
(۲) ترک ِوطن کرکے یوروپ آنے والے مسلمانوں کے لیے سخت قوانین کا نفاذ، تاکہ مسلمان یوروپ کا رخ نہ کرسکیں اور ایسے قوانین لاگو کئے جائیں جن کی رو سے مسلمانوں کا یوروپ میں قیام دشوار ہوجائے۔
(۳) مسلم خواتین کے حجاب کے استعمال پر امتناعی قوانین کا نفاذ۔
(۴) یوروپ میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کرنے کے مقصد سے نت نئے سخت قوانین کی پارلیمنٹ میں منظوری، تاکہ برسوں سے آباد مسلمانوں اپنے وطن لوٹنے پر مجبور ہوجائیں۔
(۵) مسلمانوں کی جاسوسی کے لیے خفیہ ایجنسیوں اور خفیہ ایجنٹوں میں اضافہ تاکہ مسلمانوں کی نقل وحرکت کی پوری نگرانی رکھی جائے۔
برطانیہ، سوئٹزر لینڈ، فرانس، آسٹریا، اٹالی اور ڈنمارک کی دائیں بازو کی بعض انتہا پسند پارٹیوں نے ایک ایسی متحدہ یوروپین پارٹی قائم کرنے کا اعلان کیاہے جس کا مقصد یوروپ میں اسلامیت کا صفایا کرنا ہے، نیز یوروپ کو ہونے والی مسلمانوں کی ہجرت کے سلسلے کو موقوف کرنا اور مساجد ومدارس اور دینی مراکز کی تعمیر پر پابندی عائد کرنا ہے۔ اسلامو فوبیا کا شکار یوروپ جنون میں مبتلا ہوکر یہ سب کچھ کررہا ہے، جس کے آثار ہر جگہ دیکھے جارہے ہیں، لیکن اس پر ہم مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ہر سطح سے بیداری کا ثبوت دیں۔ مسلم حکمراں حکومتی سطح پر یوروپ پر اپنے دباؤ میں اضافہ کریں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے اقدامات کے خلاف عالمی برادری میں پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھائیں اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں مسلمانوں کو حاصل حقوق کی بازیابی کی پوری کوشش کریں۔یوروپ میں یہودی لابی کی جانب سے ہورہی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں، میڈیا کے ذریعہ کئے جارہے پروپیگنڈہ کا مؤثر اسلامی میڈیا کے ذریعہ مقابلہ کریں۔ دوسری جانب یوروپ میں آباد عام مسلمان نہ صرف شریعت اسلامی سے اپنے رشتہ کو مضبوط کریں بلکہ داعیانہ کردار ادا کرتے ہوئے یوروپ دعوت ِدین کو اپنامشن بنالیں۔٭
awameez@gmail.com