یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں

   

رشیدالدین
دنیا کا شائد ہی کوئی ایسا ملک ہو جو پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانے میں دلچسپی نہ رکھتا ہو۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور عوامی خوشحالی پڑوسی ممالک سے پرامن اور خوشگوار تعلقات میں مضمر ہوتی ہے۔ پڑوسی خوش رہے تو اس کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر روابط کو ترجیح دی گئی۔ غیر جانبدار ممالک کی تحریک اور سارک جیسے اداروں کے قیام میں ہندوستان کا رول بانی کی طرح رہا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو ، اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی اور اٹل بہاری واجپائی کے دور میں بھی سارک ممالک کی تنظیم متحرک رہی اور باہمی تعاون کے مختلف شعبوں میں ترقی کی سمت پیشقدمی کی دہشت گردی اور دراندازی کے واقعات نے نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش کے ساتھ رشتوں کو کشیدہ بنادیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے 10 سالہ دور حکومت میں بھی پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ دراز کیا گیا لیکن سرحدوں اور کشمیر میں مداخلت کا سلسلہ جاری رہا ۔ بی جے پی کے لئے پاکستان ہمیشہ انتخابی موضوع رہا لیکن مرکز میں اقتدار حاصل ہونے کے بعد نریندر مودی نے اچانک لاہور پہنچ کر نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد دی تھی ۔ ہندوستان نے جب کبھی بھی خیرسگالی کا مظاہرہ کیا تو اسے جواب میں مایوسی ہاتھ آئی ۔ بی جے پی نے ہمیشہ پاکستان کو انتخابی موضوع کے طور پر اپنے ایجنڈہ میں شامل رکھا ہے ۔ فروری 2019 ء میں پلوامہ حملہ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور کشیدگی دونوں ممالک کی سیاسی جماعتوں کا ووٹ کیچنگ ایجنڈہ بن گئی ۔ سرجیکل اسٹرائیک اور سرحدوں پر تناؤ نے امن کی ریل کو پٹری سے اتار دیا ۔ پاکستان ہی نہیں ہندوستان کے دیگر پڑوسیوں نیپال ، بھوٹان ، مالدیپ اور سری لنکا سے بھی تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔ چین سے جاری سرحدی تنازعہ میں ہندوستان اپنے بعض دوستوں سے دور ہوگیا۔ اب جبکہ ملک میں انتخابی ماحول گرم ہے ، وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان اور بنگلہ دیش کو پیام امن بھیجا ہے ۔ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند اور نریندر مودی نے 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر مبارکبادی کا پیام روانہ کیا۔ پلوامہ حملہ کے بعد پہلی مرتبہ نریندر مودی نے دشمنی کے خاتمہ اور قریبی تعلقات کی امید وابستہ کی۔ عمران خاں کے نام پیام میں مودی نے اعتماد کے ماحول کی برقراری اور دہشت گردی کے خاتمہ کی وکالت کی۔ اتنا ہی نہیں آبی تنازعہ کے حل کیلئے دونوں ممالک کے عہدیداروں کا اجلاس نئی دہلی میں منعقد ہوا ۔ آئندہ اجلاس پاکستان میں ہوگا۔ خوش آئند بات یہ رہی کہ سرحد پر بندوق اور توپوں کی آوازیں تھم سی گئی ہے۔ توپ خانے اور اسلحہ و گولہ بارود کے گودام کو جیسے چھٹی دے دی گئی ہے۔ تین ریاستوں کی انتخابی مہم میں بی جے پی نے پاکستان کو انتخابی موضوع نہیں بنایا۔ ویسے بھی وہ ماحول نہیں ہے جس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ خارجہ پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے مودی نے بیک وقت پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کے لئے دونوں ممالک کے جذباتی موضوعات کا انتخاب کیا گیا ۔ یوم پاکستان اور پھر بنگلہ دیش کی آزادی کی گولڈن جوبلی سے مودی نے خود کو وابستہ کیا۔ پاکستان کو تو مبارکباد اور امن کا پیام بھیجا لیکن آزادی کی گولڈن جوبلی میں شرکت کے لئے ڈھاکہ پہنچ گئے ۔ اتنا ہی نہیں دورہ سے قبل بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کو گاندھی امن ایوارڈ 2020 ء کا اعلان کیا گیا۔ اسے ہندوستان کی شاطرانہ سفارتی چال کہا جائے گا کہ بنگلہ دیش کا قیام جو پاکستان کے لئے تکلیف دہ ہے، اس کی آزادی تقاریب میں شرکت کے لئے ڈھاکہ جانا اور تقسیم کے ذمہ دار مجیب الرحمن کو امن ایوارڈ ، پاکستان کے زخموں کو تازہ کرنا نہیں تو اور کیا ہے ۔ بی جے پی جو ہمیشہ آسام اور بنگال میں بنگلہ دیشیوں کی گھس پیٹھ کا شکوہ کرتے ہوئے اکثریتی رائے دہندوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ دونوں جگہ سی اے اے پر عمل آوری اور بنگلہ دیشیوں کو ملک سے باہر کرنا سیاسی ایجنڈہ ہے لیکن دونوں ریاستوں میں انتخابات کے موقع پر مودی کا دورہ بنگلہ دیش کہیں بنگلہ دیشیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش تو نہیں ؟ ’’مودی ہو تو ممکن ہے‘‘ کے مصداق سیاسی فائدہ کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ پاکستان کے ساتھ امن کی بولی تو دوسری طرف تکلیف دینے کے کام بھی جاری ہیں۔ کورونا وباء کے آغاز کے بعد سے مودی نے بیرونی دورے ترک کردیئے تھے لیکن کورونا کی پرواہ کئے بغیر وہ بنگلہ دیش پہنچ گئے جو ایک سال میں پہلا بیرونی دورہ ہے۔ مبصرین کے مطابق مودی نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ ایک تو بنگلہ دیشی شہریوں کے ووٹ آسام اور بنگال میں حاصل کرنے کی کوشش تو دوسرا پاکستان کو سفارتی سطح پر جھٹکہ دینا ۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے معاملہ میں مودی کے دوہرے معیارات بے نقاب ہوگئے۔ یوم پاکستان کی مبارکباد دیتے وقت مودی شائد بھول گئے کہ بی جے پی کا نعرہ اکھنڈ بھارت ہے جس میں دونوں پڑوسی ممالک شامل ہیں۔ اگر کوئی غیر بی جے پی قائد اور خاص طورپر کانگریس کے راہول گاندھی یوم پاکستان کی مبارکباد دیتے تو بی جے پی اور سنگھ پریوار آسمان سر پر اٹھالیتے اور طرح طرح الزامات ہی نہیں بلکہ دیش دروہی کا مقدمہ درج کیا جاتا ۔ سابق میں کئی شخصیتوں کے ساتھ ایسا ہوچکا ہے لیکن چونکہ خود وزیراعظم نے پاکستان کو مبارکباد دی ہے ، لہذا سنگھ پریوار کو یہ قبول ہے ۔ ملک کے عوام کو آج بھی یاد ہے کہ جب ایل کے اڈوانی نے پاکستان کے دورہ میں محمد علی جناح کو سیکولر لیڈر کا خطاب دیا تھا ۔ یوم پاکستان کی مبارکباد کے وقت مودی کو پلوامہ حملہ یاد نہیں رہا جس کے بعد آج تک بھی بعض پابندیاں برقرار ہیں۔ پاکستانی طیاروں کو ہندوستانی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت نہیں ہے ۔ دونوں ممالک کے عوام کی یہی خواہش ہے کہ تعلقات استوار ہوں اور یہ صرف مبارکبادی کی ڈپلومیسی تک محدود نہ رہیں۔ بنگلہ دیش کے دورہ کے بعد کم از کم بنگلہ دیش کے نام پر پناہ گزینوں کو ہراسانی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے ۔
ملک میں ٹھیک ایک سال کے وقفہ کے بعد کورونا نے پھر ایک مرتبہ پوری شدت کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلایا ہے ۔ دوسری لہر ماہرین کے مطابق پہلی لہر سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے ۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران آسام اور بنگال میں پہلے مرحلہ کی رائے دہی مکمل ہوئی جبکہ دیگر مراحل کیلئے انتخابی مہم عروج پر ہے ۔ مہاراشٹرا کورونا سے سب سے زیادہ متاثر بتایا جاتا ہے لیکن تقریباً 6 ریاستوں میں مقامی سطح پر لاک ڈاؤن اور تحدیدات عائد کی گئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ریاست میں الیکشن ہوتا ہے ، کورونا وہاں کے عوام پر مہربان ہوجاتا ہے ۔ سابق میں بہار میں الیکشن ہوا لیکن وہاں کورونا کا کوئی اثر دیکھا نہیں گیا ۔ اب جبکہ پانچ ریاستوں میں انتخابی مہم جاری ہے ، ان میں صرف ٹاملناڈو کو چھوڑ کر دیگر ریاستیں کورونا کی دوسری لہر سے محفوظ بتائی جاتی ہیں۔ ہندوستان میں کورونا کے علاوہ دوسری قسم کا وائرس بھی تحقیق میں منظر عام پر آیا ہے۔ قومی سطح پر دوبارہ لاک ڈاؤن کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن مرکز نے تمام ریاستوں کو مذہبی تہواروں اور شادی بیاہ کے موقع پر ہجوم کو کم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ رمضان المبارک سے عین قبل کورونا کی دوسری لہر سے اندیشہ ہے کہ رمضان المبارک کی روایتی رونقیں تحدیدات کا شکار ہوجائیں گی۔ گزشتہ سال رمضان المبارک لاک ڈاؤن کے دوران گزر گیا تھا اور نماز عید مسلمانوں کو مساجد اور عیدگاہوں کے بجائے گھروں میں ادا کرنی پڑی تھی ۔ اب جبکہ مرکز اور ریاستوں کی جانب سے دوبارہ تحدیدات کے نفاذ کا امکان ہے، اس کا زیادہ تر اثر رمضان المبارک کی عبادتوں اور تجارتی سرگرمیوں پر پڑسکتا ہے ۔ خوشی اور غم دونوں مواقع پر ہجوم کی صورت میں ماہرین نے وائرس کے پھیلاؤ کا اندیشہ ظاہر کیا ہے ۔ کیا واقعی کورونا وائرس ویکسین کی ایجاد کے باوجود ناقابل کنٹرول ہوچکا ہے ؟ کئی ایسے متاثرین دیکھے گئے جنہیں دو مرتبہ ٹیکہ اندازی کے باوجود کورونا نے اپنا شکار بنایا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا واقعی موجود ہے یا پھر کورونا کے نام پر حکومتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ حقیقت چاہے کچھ ہو لیکن مسلمانوں کو رمضان المبارک کے دوران احتیاطی تدابیر کا حد درجہ پاس و لحاظ کرنا چاہئے تاکہ موذی مرض سے بچا جاسکے ۔ اسلام نے بھی صحت کی حفاظت کو اہمیت دی ہے ۔ نریندر مودی کے دورہ بنگلہ دیش پر جون ایلیا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم