یہ کھلی نفرت پریشان کن ہے۔ نصیر الدین شاہ

,

   

نصیر الدین شاہ کلچرل کمیونٹی کے ان 180دستخط کنندگان میں ہیں‘ جنھوں نے کھلی خط پر ایف ائی آر کی سختی کے ساتھ مذمت کی تھی‘ مگر ساتھ میں یہ بھی کہاتھا کہ جو49اہم شخصیتوں نے کھلا خط لکھا ہے اس کے ایک ایک لفظ کی وہ ”تصدیق“ کرتے ہیں۔

اداکار‘ پلے رائٹر نصیر الدین شاہ نے کہاکہ وزیراعظم نریندر مودی کو کھلا مکتوب لکھنے والے ان کے ساتھیوں پر درج ایف ائی آر کی مذمت ان کی جانب سے حمایت کرنے پر انہیں کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ ان لوگوں نے بڑھتے ہجومی تشدد پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔

نصیر الدین شاہ کلچرل کمیونٹی کے ان 180دستخط کنندگان میں ہیں‘ جنھوں نے کھلی خط پر ایف ائی آر کی سختی کے ساتھ مذمت کی تھی‘ مگر ساتھ میں یہ بھی کہاتھا کہ جو49اہم شخصیتوں نے کھلا خط لکھا ہے اس کے ایک ایک لفظ کی وہ ”تصدیق“ کرتے ہیں‘ مکتوب لکھنے والوں میں فلم میکرس اپرنا سین‘ ادور گوپا ل کرشنن اور کالم نگر مصنف رام چندر گوہا شامل تھے۔ ایک ہندوستان فلم پراجکٹ کی شروعات کے موقع پر مایہ ناز اداکارنے ملک کے موجودہ سماجی اور سیاسی حالات پر اپنے نظریات کا اظہار کیاہے۔

مذکورہ صحافی نے پدمابھوشن ایوارڈ حاصل کرنے والے اداکار سے استفسار کیا ہے کہ اگر ان کی رائے کی فطرت سے ان کے فلموں کو شاخسانہ ادا کرنا پڑا اور ان کے اپنے بالی ووڈ ساتھیو ں سے تعلقات پر اثر پڑے گا۔

شاہ نے جواب دیا کہ ”میں نے کبھی بھی کسی بھی معاملہ میں انڈسٹری کے ساتھ قریبی تعلقات نہیں رکھے تھے اور میں نہیں سمجھتا کہ یہ میرے موقف کو متاثر کریں گے کیونکہ اکثر اوقات میں مجھے زیادہ پیشکش نہیں کی جاتی ہے۔مگر میں اتنا ضرور محسوس کرتاہوں کہ میں جوکچھ بھی کہتاہوں۔ میں اس پر قائم رہتاہوں۔

میں نے لوگوں کی جانب سے بہت بدسلوکی کا ساامنا کیاہے‘ جنھوں نے کبھی کچھ اچھا نہیں کیا۔ اس کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مگر جو چیز پریشان کرنے والی ہے وہ یہ کھلی نفرت ہے“۔

مذکورہ کھلا خط جس پر انہوں نے دستخط کی تھی اس میں لکھا ہے کہ ”کیا اس کو سیڈیشن کہا جاسکتا ہے؟ یا عدالتوں کا بیجا استعمال کرتے ہراساں کرنا ہے تاکہ شہریوں کی آواز کو دبایاجاسکے؟“۔لیٹر میں مزید لکھا ہے کہ ”انڈین کلچرل کمیونٹی کے تمام ممبران اس طرح کی ہراسانی کی سختی کے ساتھ مذمت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہم وزیراعظم کو ہماری ساتھیوں نے جو لیٹر لکھا ہے اس کے ایک ایک لفظ کو ہم حق بجانب قراردیتے ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ ہم اس خط کو دوبارہ منظرعام پر لاتے ہوئے کلچرل‘ اکاڈیمک اور لیگل کمیونٹیوں سے اپیل کرتے ہیں وہ بھی ایسا کریں۔یہی وجہہ ہے کہ ہم ہر روز زیادہ بات کریں گے۔

جو ہجومی تشدد کے خلاف ہے۔ لوگوں کی آواز کو خاموش کرنے کے خلاف ہے۔شہریوں کو ہراسانی کرنے کے لئے عدالتوں کے بیجا استعمال کے خلاف ہے“