حیدرآباد میں ’’شام ریختہ ‘‘

   

رفیعہ نوشین

رپورتاژ
معروف صنعت کار ،انسان دوست اور اُردو کے عاشق سنجیو صراف نے 2013 ء میں ’’ریختہ فاؤنڈیشن‘‘ قائم کیا جس کا مقصد اُردو کا تحفظ اور فروغ ہے ، اس مقصد کے حصول کیلئے ریختہ ڈاٹ آرگ (www.rekhta.org) کے نام سے ایک ویب سائیٹ کا آغاز بھی کیا گیا جو بہت جلد اُردو شاعری نثر اور اُردو میں لکھی جانے والی کتابوں کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی ویب سائیٹ بن گئی ۔ اس کے علاوہ اُردو زبان اور تہذیب کے مختلف رنگوں اور ذائقوں کو عوام تک پہنچانے کے لئے جشن ریختہ، رنگ ریختہ اور شام ریختہ جیسی تقریبات کا اہتمام بھی کیا جانے لگا اور یہ تقریبات بھی بہت جلد اردو زبان وتہذیب کے سب سے بڑے جشن کے طور پر دیکھی جانے لگیں ہم جب بھی ریختہ کے ان پروگراموں کے ویڈیوزسوشل میڈیا پر دیکھتے تو دل میں ایک تمنا جاگتی کہ کاش ہمیں بھی ریختہ کے ان پروگراموں میں شرکت کا موقع ملتا اور ہم بھی ان سے لطف اندوز ہوتے اور پھر ایسا ہوا کہ کاش کو حقیقت میں بدلنے کا موقع ہاتھ آیا ہمیں پتہ چلا کہ حیدرآباد میں بھی شام ریختہ کا انعقاد ہونے والا ہے 13 اکٹوبر 2019 کو جس کی انفرادیت یہ تھی کہ اس کا انعقاد نوجوانوں کی ادبی تنظیم انجمن فنان کررہی تھی ، جس کی نہ صرف ساری ذمہ داری نوجونوں کے کندھے پر تھی بلکہ سارے فنکار بھی نوجوان تھے،سوشل میڈیا پر جیسے ہی اس کی اطلاع ملی ہم نے فوراَ اپنے دوستوں کو فون کرنا شروع کیا تاکہ ان کے ساتھ اس شام کا لطف اٹھا سکیں، کسی کو بچوں(نوجوانوں) کے اس پروگرام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی تو کسی کو ٹکٹ بہت قیمتی لگا در اصل حیدرآباد کی یہ روایت ہے کہ یہاں کے تمام ادبی اور ثقافتی پروگراموں میں داخلہ مفت ہوتا ہے ، اب چاہے وہ بین الاقوامی مشاعرے ہوں یا مشہور گلوکاروں کی شام غزل ہو یا طنز ومزاح کے پروگرام حیدرآبادی عوام بڑے اطمنان سے افراد خاندان اور دوست احباب کیساتھ اپنے ذوق کی تسکین کرتے ہیں ، ایسے ماحول میں نوواردان ادب کے پروگرام کیلئے 400 روپئے خرچ کرنے والی بات عوام کو ہضم نہیں ہو رہی تھی ، بڑی تگ ودو کے بعد ایک فراخ دل دوست آرزو مہک نہ صرف فوراَ تیار ہوگئیں بلکہ اس نے ہم دونوں کے ٹکٹ بھی آن لائن بک کر دئے – جیسے ہی بکنگ ہوگئی ہم بے چینی سے انتظار کرنے لگے13 تاریخ کا اور اس وقت کو ہم نے یوں بتایا کہ جس سے بھی ملتے شام ریختہ کا تذکرہ ضرور کرتے ۔کچھ دوستوں کو ہمارے اس پروگرام میں شرکت پر بھی اعتراض تھا ، اس لئے کہ وہ ریختہ کو پسند نہیں کرتے ، ان کا ماننا ہے کہ ریختہ اُردو کو دوسری زبانوں کے رسم الخط میں عام کرکے اردو کے رسم الخط کا قتل کر رہی ہے – جبکہ ریختہ کے آغاز سے ہی اس کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی رہا ہے کہ اردو کے جادو کو غیر اُردو داں طبقے تک پہنچایا جا ئے ، اس کے لئے ریختہ پر شامل تمام متون کو اُردو کے ساتھ دیوناگری اور رومن رسم الخط میں پیش کیا گیا ہے،اس کے علاوہ اُردو کے فروغ کے لئے ریختہ فاؤنڈیشن نے اور بھی کئی اہم منصوبوں پر کام کیا ہے جن میں آموزش ڈاٹ کام کے نام سے اردو رسم الخط سکھانے کے لئے بنائی گئی ویب سائیٹ بھی شامل ہے ۔ جہاں خود کار طریقے سے اردو رسم الخط سیکھا جا سکتا ہے – آموزش پر اردو رسم الخط کو دلچسپ بنانے کے لئے جدید تکنیکی طریقوں کو اختیار کیا گیا ہے – اس لحاظ سے آموزش اپنی نوعیت کا پہلا آن لائن اردوسیکھنے کا پورٹل ہے – اس کے علاوہ اردو رسم الخط سکھانے کے لئے کلاسس بھی چلائے جا رہے ہیں ۔ جو لوگ کلاس روم لرننگ کے قائل ہیں وہ اس سے فیض یاب ہو سکتے ہیں ۔ ان تمام کوششوں کے باوجود اگر اردو کے چاہنے والوں کو ریختہ سے بیر ہے تو وہ ان کا اپنا نظریہ ہے ۔ نظریاتی اختلافات تو ہر میدان میں ہوتے ہی ہیں ۔
پروگرام شام سے شروع ہونے والا تھا ہم اپنی عادت۔سے مجبور تیز بارش کے باوجود وقت سے پہلے 5 بجے ہی جواہر بال بھون، (نامپلی) پر موجود تھے ، آرزو کو فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ راستے میں ہے ۔ ہم نے جیسے ہی آڈیٹوریم کے برآمدے میں قدم رکھا دیکھا کہ سیاہ رنگ کے مختلف طرز کے لباسوں میں ملبوس نوجوان لڑکے ولڑکیاں گلے میں والینٹیر کے بیاجس پہنے مہمانوں کے استقبال کے لئے تیار تھے ۔ سیاہ رنگ یوں تو دکھ کی ترجمانی کرتا ہے لیکن اگر اس کے مثبت پہلو پرنظر ڈالیں تو سیاہ رنگ کائنات کی مخفی قوتوں کا ترجمان بھی کہلاتا ہے اور اس رنگ کو پسند کرنے والے لوگ مشکل پسند بھی ہوتے ہیں۔ ظاہر سی بات تھی پہلی مرتبہ حیدرآباد میں بڑے پیمانے پر شام ریختہ کا اہتمام کرنا کوئی آسان بات تونہ تھی ۔ انجمن کے ممبر عمر صدیقی نے بتایا کہ پچھلے دو ماہ سے وہ لوگ ریختہ سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اجاذت ملی صرف پندرہ دن پہلے ۔ اور ساری تیاریاں بھی 15 دنوں میں پایہ تکمیل کو پہنچیں ۔ برآمدے کے ایک طرف مکتبہ فیضان ابوالحسنات نے قدیم کتابوں کی اسٹال لگائی تھی جہاں اُردو کی نایاب و کمیاب کتابیں فروخت کے کے لئے رکھی گئیں تھیں – میں ان کتابوں کا جائزہ لے ہی رہی تھی کہ آرزو آگئیں – بکنگ کی توثیق کے طور پر ہماری کلائیوں پر ٹھپہ لگایا گیا جسے بتا کر ہم آڈیٹوریم میں داخل ہوئے – 500 افراد کی گنجائش والا آدھا ہال تو بھر چکا تھا اور آدھا خالی تھا – ہال کے اندر بھی والنٹیرس موجود تھے جو ناظرین کو نشستوں تک پہنچنے میں ان کی مدد کر رہے تھے – اسٹیج کی دیوار کامکمل احاطہ کرتا ہوا بڑا سا نیلے رنگ کا خوبصورت بیانر موجود تھا جو خوبصورت اردو زبان سے محروم تھا – اردو کی محبت میں اتنا بڑا پروگرام کرنے والے آرگنائزر سے جب ہم نے اس بابت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں بس دھیان نہیں رہا – انجمن کے ذمہ داران پروگرام سے پہلے سرپرستوں سے یا تجربہ کار افراد سے مشاورت کر لیتے تو بیانر پر اردو اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروزہوتی – یہ پہلے تجربہ کی پہلی سیکھ ہے ان نوجوانوں کے لئے جنہوں نے فروغ اردو کی جانب ایک قدم تو بڑھایا ہے – حیدرآبادی روایتی تاخیر کے عادی ہو چکے ہیں اس لئے بیشتر تقاریب چاہے وہ ادبی ہوں یا نجی وقت مقررہ پر شروع نہیں ہوتیں۔ اس پروگرام میں بھی روایتی پاسداری کا پورا خیال رکھتے ہوئے شروع ہونے والے پروگرام کو سوا گھنٹہ تاخیر سے شروع کیا گیا۔ ریاست علی اسرار ناظم جلسہ نے تاخیر کیلئے معذرت چاہتے ہوئے حاضرین محفل کا استقبال کیا ۔ ریختہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس کی ویب سائیٹ پر اردو کی ستر ہزار کتابیں موجود ہیں – انہوں نے انجمن فنان کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ2018 میں نوجون زکی حیدرنے اس تنظیم کا قیام عمل میں لایا جس کا مقصد اردو کی خدمت اور فروغ ہے – اس ضمن میں انجمن کے ذریعہ تا حال اردو کے کئی ورک شاپ، سمینار، وغیرہ منعقد کئے جا چکے ہیں – اس کے ساتھ ہی انجمن کے نوجوان بانی ذکی حیدر اسٹیج پر تشریف لائے اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا- اس وقت تک اردو کے چاہنے والوں سے آڈیٹوریم بھر چکا تھا – مجھے تعجب اسی بات کا ہورہا تھا کہ مفت کے پروگراموں میں بھی حاضرین کی اتنی تعداد نہیں ہوتی جتنی کہ اس پروگرام میں موجود تھی۔ فرق اتنا تھا کہ اس پروگرام کے حاضرین کا تعلق مختلف مذاہب سے تھا جو گنگا جمنی تہذیب کی بھرپور عکاسی کر رہے تھے ،نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی کثیر تعداد میں موجود تھے جنہیں دیکھ کر بڑی مسرت ہورہی تھی ورنہ تو دیکھا یہ جارہا ہے کہ اردو ادب کی محفلیں پثمردگی اور تنزلی کا شکار ہوتی جا رہی ہیں اور اکثر جلسوں میں نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے یعنی آٹے میں نمک کے برابر ۔
ریاست علی اسرار نے بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ ” آج کے اس پروگرام کے ذریعہ ہم اردو داں طبقہ کے ان خدشات کو دور کرنا چاہتے ہیں جو عوام کے ذہن میں گھرکر گئے ہیں کہ اردو زیادہ تر بزرگوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے – ان کے بعد اردو دم توڑ دے گی- نئی نسل تو اس سے کو دُور ہے – جب کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے نوجوان نسل نے 400 سالہ قدیم اردو زبان کی حفاظت،ترقی وترویج کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی ٹھانی ہے تاکہ اُردو ہمیشہ زندۂ جاوید رہے – پروگرام چار نشستوں پر مشتمل تھا – پہلا حصہ نثر گوئی کا تھا – جس میں چار نوجوانوں نے حصہ لیا – آغاز ہوا تانیثی خیالات کی حامل ممتاز اردو فکشن نگار واجدہ تبسم کے افسانے ‘اترن’ کے اقتباس سے جسے پیش کیا ۔
دانش ماجد نے اقتباس سنانے کے دوران دکنی لہجہ کی ادائیگی،انداز بیان کو نبھانے کی بھر پور کوشش کی بجز اس کے کہ ‘جم غفیر’ کو ‘جام غفیر’ پڑھا – بات تلفظ کی ہے تو اکثر بڑے بڑے پروفیسرس سے بھی تلفظ کی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں یہ تو پھر طفل مکتب ہیں – جب تک غلطیاں نہ کریں گے تو سیکھیں گے کیسے – نوجوان آصف علی زیدی جو پیشے سے وکیل ہیں نے ”اردو اور عدالت کا رشتہ” جیسے اچھوتے عنوان پر بہترین مضمون پیش کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ زمانہ قدیم میں اردو عدالتوں کی زبان ہوا کرتی تھی – قانونی اصطلاحات بھی اُردو میں ہوا کرتی تھیں، یہاں تک کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بھی اُردو میں ہوا کرتی تھی قانونی استعارے بھی اردو کے استعمال ہوتے تھے۔ اور پھر انہوں نے مختلف عدالتوں کے فیصلے اور ان کی عکاسی کرنے والے اشعار کا بھی حوالہ دیا جس میں مختلف منصفوں نے اپنے فیصلوں کی سنوائی کے دوران استعمال کیا تھا – آصف کا انداز بیان، الفاظ کاانتخاب و ادائیگی،روانی، ان کا اعتماد،موضوع پر ان کی گرفت اور دئے گئے وقت میں بات کو ختم کرنے کی کوشش بتا رہی تھی کہ وہ ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں، جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کامیاب وکالت کے ساتھ ساتھ اپنے ادبی سفرمیں بھی کامیابی کی بلندیوں تک جلد ہی پہنچیں گے – ان کو سنا تو مسرت کے ساتھ ساتھ اطمنان بھی ہواکہ نوجون نسل اردو کی نیا کو ڈوبنے نہیں دے گی – تیسری پیشکش تھی حسین حیدر کی جنہوں نے چار نثری نظموں کو پیش کیا جس کے عنوانات تھے- چھپکلی، لت (سگریٹ کی) دو خط، ”ابھی میں مر نہیں سکتا” اور ”ہندوستانی مسلمان” – ان کی نظم چھپکلی نے مجھے فرید عشرتی کی اسی عنوان پر لکھی نظم یاد دلادی-حیدر کی نظموں میں اصلاح کا پہلو نمایاں تھا- انہوں نے بہت ہی آسان فہم زبان میں بہت ہی گہرائی وگیرائی والی باتوں کو اپنی نظموں کے زریعہ خاص و عام تک پہنچایا جیسے سامعین نے کافی سراہا – اس نشست کی آخری پیش کش تھی پرنو شرما کی جنہوں نے داستان تقسیم ہند کو اردو،ہندی،انگریزی اور پنجابی ز بان کے امتزاج سے بہت ہی پرجوش انداز میں متاثر کن اداکاری کے ساتھ اس طرح پیش کیا کہ داستان گوئی کی جھلک کا گمان ہو رہا تھا – پروگرام کی دوسری نشست موسیقی پر مبنی تھی پنجابی فنکار گوئند نے نغمہ سرا ہونے سے پہلے اس بات کا اعتراف کیا کہ ”میں نے سُر سیکھا نہیں ہے – اور میرا اردو کا تلفظ بھی صحیح نہیں ہے مثال کے طور پرہم پنجابی پھر کو ہمیشہ فر ہی کہتے ہیں جس کے لئے معافی چاہتا ہوں – تلفظ کو سدھارنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن میری موسیقی کھری کھری ہے- اور واقعی انہوں نے مختلف شعرا ء کے مشہور اشعار، قطعات اور صوفی کلام کو سحر انگیز آواز میں ساز پر پیش کرکے اپنی بات کو ثابت بھی کیا – جس وقت وہ گا رہے تھے نوجوان ان کے ساتھ شامل ہوکر جھوم رہے تھے اور ہال میں ایک سماں سا بندھ گیا تھا-دو نشستوں کے بعد،چائے اور ناشتہ کا وقفہ دیا گیا تھا – والنٹیرس سب کو ان کی نشستوں تک سنیاکس اور کولڈ ڈرنک پہنچا رہے تھے- یہی نہیں والنٹیرز معمر افرادکو باہر جانے آنے اور دیگر معاملات میں بھی کافی مدد کر رہے تھے – اور سامعین کو ہر قسم کی سہولت بہم پہنچانے کی پوری کوشش کر رہے تھے- جس کے لئے سبھی والنٹیرس مبارکباد کے حقدار ہیں جنہوں نے تندہی، چستی پھرتی،اور خوش مزاجی سے اس ہروگرام کو کامیاب بنانے میں بھر پور رول ادا کیا – وقفہ کے بعد،حیدرآباد کے معروف شاعر جناب سردار سلیم کی صدارت، تمجید حیدر اور معین افروز کی موجودگی میں مشاعرہ کا آغاز کیا گیا لکھنو کے جواں سال شاعر عمر صدیقی سے جن کا ایک شعر تھا :
سانحہ زندگی ، حادثہ زندگی
غم میں لپٹا ہوا واقعہ زندگی!
سارے ہی شعراء و شاعرات نوجوان اور تازہ دم تھے – قارئین کی دلچسپی کے لئے ان تمام کے کلام سے ایک منتخب شعر پیش کر رہی ہوں ملاحظہ کریں:
سوجناستیہ واد:
تیری وحشت بلارہی ہے کیوں؟
دو دلوں کو ملارہی ہے کیوں؟
فیض جنگ:
زندگی اس کے نام کرتا ہوں
میں بڑے اونچے کام کرتا ہوں!
آپ تو رات کے مسافر ہیں
آپ کا احترام کرتا ہوں!
نعمان اثر:
وجہ ہے یہ میرے جینے کی دوست
شاعری بن میں تو مر جاؤں گا
سومیہ وینکٹیشن:
سنا ہے شہر میں ایک میرا ہی مکان ہے
جہاں چھت کے بدلے کھلا آسمان ہے
ذکی حیدر نے ریختہ کے عنوان پر ہی شعر پیش کیا :
اب تو شاعر ہیں جو ریختہ پہ پڑھتے ہیں
ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب!
ریاست علی اسرار:
آندھی سے جہل کی ہے زمانے میں تیرگی
بجھتے ہوئے چراغ جلانا ہے اب مجھے!
فیصل فہمی:
ریت پیکر ہوں کبھی مجھ سے جو ملنے آنا
اپنی انگلی سے میرے جسم پہ پانی لکھنا
عباس قمر:
ہم سے سر پھرے دنیا کو کب درکار ہوتے ہیں
اگر ہوتے بھی ہیں بے انتہا دشوار ہوتے ہیں
معین افروز:
چھڑی جو بات چمن میں نزاکت گل کی
ترے گلابی لبوں کی مثال دی میں نے
مشاعرہ کے اختتام پر سردار سلیم نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ حیدرآباد میں پہلی مرتبہ ’’ریختہ فاؤنڈیشن‘‘ کے زیراہتمام یہ یادگار اور شاندار مشاعرہ منعقد ہوا ہے جس کے لئے بانیان مشاعرہ قابل مبارکباد ہیں، انہوں نے اپنے منتخب اشعار نظم اور غزل پیش کر کے خوب داد حاصل کی – آخری نشست قوالی کی تھی جس میں مکرم فیضان اور محتشم وارثی کے دو گروپس نے قوالی پیش کی جس کا سلسلہ رات تک چلتا رہا ۔ اظہار تشکر کے ساتھ اس خوبصورت یادگار پروگرام کا اختتام عمل میں آیا۔ ایسے پروگرام بہت کم ہوتے ہیں جہاں مہذب ناظرین کی کثیر تعداد شروع سے آخر تک فنکاروں کی پذیرائی میں مگن ہو کر بیٹھی رہی اور خوب لطف اندوز بھی ہوئی -آج ان نوجوانوں نے اس پروگرام کے ذریعہ اقبال اشہر کے اس شعر کو غلط ثابت کر یا تھاکہ:
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
اُردو ہے میرا نام میں خسرو کی پ