مسلم زیر انتظام عصری مدارس
توقعات اور نتائج

اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مسلم قوم میں تعلیم کا رجحان ماضی کے مقابل میں بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کی فکر تعلیم کی طرف مائل ہوتی جا رہی ہے اور ماں باپ لاکھ جتن کرکے اپنی اولاد کو اعلی سے اعلی تعلیم دلانے کے لئے مقامی مدارس کے انتخاب میں فکرمند رہتے ہیں اور عصری مدارس کے ذمہ داران اپنے اشتہارات، ہینڈبلس اور دیگر تشہیری ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مدارس کی کار کردگی، اعلی تعلیم، انگریزی ماحول، بہترین نظم و نسق، لیڈر شپ کوالٹی، مسابقت کی اہلیت، امتیازی کامیابی، اعلی تربیت یافتہ اسٹاف جیسے بلند اعلانات کرتے ہیں، بطور خاص مسلم زیر انتظام اسکولس اسلامی تربیت، حفظ قرآن مجید اور دینی ماحول فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، جس سے متاثر ہوکر ماں باپ اپنی اولاد کو ان مدارس میں شریک کروادیتے ہیں اور ذمہ داران مدارس کے مطالبات پورا کرتے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ امتحانات میں کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی، درحقیقت طالب علم میں مسابقت کا حوصلہ پیدا کرنا، تخلیقی صلاحیت اُجاگر کرنا، اہل زمانہ کے شانہ بہ شانہ چلنے اور ان میں علمی و سائنسی میدان میں مقابلہ کی استعداد پیدا کرنا، قوم و ملت اور مذہب و وطن کی ترقی کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کی جستجو پیدا کرنا، جدید ایجادات و اختراعات میں حصہ لینے کا اہل بنانا، بلالحاظ مذہب و ملت قوم کی نمائندگی اور قیادت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا، ان کو بنیادی و ضروری مسائل کے حل کرنے کی فکر دینا، انسانی ہمدردی کا شوق دلانا، قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا وجود منوانے کا خوگر بنانا اصل مقصد و ٹارگٹ ہونا چاہئے۔
مسلمان نفس امتحان میں کامیابی کو ہی حقیقی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ ان امتحانات میں تو کوئی بھی طالب علم جو کسی بھی درجہ کا ہو، کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ یہ حقیقی مقصد نہیں، بلکہ یہ صرف ٹریننگ ہے، ابھی میدان عمل میں قدم رکھنا ہے، میدان کارزار میں بہادری کے جوہر دکھاکر داد شجاعت حاصل کرنا ہے، اغیار کی صفوں میں ان کے ساتھ شامل ہوکر فتح و نصرت اور کامیابی و کامرانی کا پرچم نصب کرنا ہے۔ اگر ابتدائی ٹریننگ حاصل کرکے سمجھ جائیں کہ ہم کامیاب ہوچکے ہیں اور مقصود پالئے ہیں تو یہی ناکامی کا پہلا اور آخری زینہ متصور ہوگا۔
مدارس بچوں کی اعلی تعلیم و بہترین کردار سازی کے اعلانات تو کر رہے ہیں، لیکن خود ان کے پاس تربیت یافتہ اسٹاف نہیں ہے، طریقہ تدریس مؤثر نہیں ہے، جدید تکنیکی ذرائع و آلات سے استفادہ نہیں ہے، بچوں میں اپنا فن، ہنر اور صلاحیت منتقل کرنے کا جذبہ نہیں ہے، پتھر کو تراش کر ہیرا بنانے کی فکر نہیں ہے۔
عصری مدارس بطور خاص مسلم زیرانتظام اسکولس کے اشتہارات و اعلانات دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسلم قوم کے تعلیمی میدان میں عظیم انقلاب بپا ہوا ہے اور یہ قوم بہت جلد بام عروج کو چھو لے گی، لیکن سچر کمیٹی اور دیگر تعلیمی جائزہ کمیٹیوں کی رپورٹس پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کثیر مسلم قوم جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہے اور جو بچے تعلیمی میدان میں قدم رکھتے ہیں، گریجویشن سے پہلے ہی تعلیم ترک کردیتے ہیں اور جو گریجویشن کرتے ہیں، وہ اس کو اپنی کامیابی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ صد افسوس کہ مسابقتی امتحانات و اعلی تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کا تناسب دیگر اقلیتوں کے مقابل میں بہت کم، بلکہ ناگفتہ بہ و ناقابل التفات ہے۔
آج خود غرضی و مفاد پرستی کا دور دورہ ہے، کوئی شخص بغیر مفاد کے کام کرنے اور دوسرے کے کام آنے پر آمادہ نہیں ہے۔ شعبہ تعلیم ہو یا شعبہ طب یا انسانیت کے کام آنے والے دوسرے شعبے ہوں، ہر ایک کا ذہن کمرشیل اور تجارتی ہو گیا ہے۔ عمدہ صفات تو بظاہر نظر آتے ہیں، مگر وہ درحقیقت سامنے والے کا اعتماد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ عوام و خواص تجارتی ذہنیت کے حامل ہو گئے، ہر کام میں دنیوی غرض اور مال و دولت کی خواہش غالب ہے۔ خدمت خلق کا کوئی جذبہ نہیں، لیکن دعوے اس قدر بلند ہیں کہ اس کو سن کر آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
خلیفہ ہارون رشید نے اپنے ہم زمانہ فرانس کے بادشاہ شارلیمان کو تحفہ میں ایک بے مثال گھڑی بھجوائی تھی، جس کی ندرت دیکھ کر اہل یورپ مجسمہ حیرت بن گئے تھے۔ آج بھی صدیاں گزرنے کے باوجود عہد وسطی کے مسلم دانشوروں، ہیئت دانوں، سائنس دانوں، اطباء، صنعت کار، انجینئر، ماہرین فن، آرکٹیکٹ، ریاضی داں، مؤرخین، ماہرین فلکیات کی ایجادات و تخلیقات اور اختراعات کی تابانیوں میں رمق برابر فرق نہیں آیا۔ ان کے پیش کردہ نظریات و دریافتیں، ان کی بنائی ہوئی مشینیں، ان کے بنائے ہوئے آلات آج بھی ترقی کے اس عروج کے دور میں بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض نظریات معمولی ردوبدل کے ساتھ تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان مسلمانوں نے میدان حیات کے مختلف شعبوں میں عملی تجربات کئے اور ہر میدان میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے بے مثال خدمات پیش کیں۔
مسلمانوں کے ماضی کو دیکھتے ہیں تو دل خوشیوں سے معمور ہو جاتا ہے اور حال پر نظر ڈالتے ہیں تو مسلمانوں کی بے حسی، پژمردگی، زبوں حالی، پریشان خیالی اور پست ہمتی بے چین و بے قرار کردیتی ہے اور جب مسلمانوں کے مستقبل پر غور و خوض کیا جاتا ہے تو پھر ایک نئی صبح کی آرزو ہوتی ہے، بہت جلد ذلت و جہالت کی تاریکیوں کے پردے چھٹنے کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ دل کو ایک آس ہوتی ہے کہ ایک بار پھر اسلام کا علمی سورج دنیا کو روشن و منور کردے گا، اس کی کرنیں دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلیں گی اور دنیا اس کی فیض رسانی سے مستفید ہوگی۔ ان بلند مقاصد کی تکمیل میں مسلم زیر انتظام مدارس اہم رول ادا کرسکتے ہیں اور ان سے قوی توقعات وابستہ ہیں کہ وہ مسلمان نسل کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا کرنے کا قابل بنانے اور اسلام کا نام روشن کرنے والا بنانے میں اپنا مثبت اور مؤثر رول ادا کریں گے۔