20 برس بعد ابو غریب جیل کے قیدیوں کے مقدمہ کی سماعت ہوگی

   

ورجینیا: آج سے 20 سال قبل اپریل کے ہی مہینے میں عراق کی ابو غریب جیل میں بدسلوکی کا شکار قیدیوں اور ان کی حفاظت پر مامور امریکی فوجیوں کی مسکراتے ہوئے تصاویر جاری کی گئی تھیں جس نے دنیا کو چونکا کر رکھ دیا تھا۔امریکی عدالت میں اگلے ہفتے ابو غریب جیل میں قید زندہ بچ جانے والے تین قیدیوں کا مقدمہ اُس فوجی کنٹریکٹر کے خلاف سنا جائے گا جسے وہ اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔اس مقدمے کی سماعت ریاست ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا کی عدالت میں پیر کو شروع ہو گی۔مدعیان کی نمائندگی کرنے والے مرکز برائے آئینی حقوق کے وکیل بحر اعظمی کے مطابق یہ پہلا موقع ہو گا کہ ابو غریب کے زندہ بچ جانے والے اپنے تشدد کے دعوے امریکی جیوری کے سامنے پیش کر سکیں گے۔ ‘ایسو سی ایٹڈ پریس’ کے مطابق اس سول مقدمے میں مدعا علیہ کنٹریکٹر کمپنی ‘سی اے سی آئی’ نے کسی بھی غلط کام سے انکار کیا ہے اور 16 سال کی قانونی چارہ جوئی کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کے ملازمین پر الزام نہیں ہے کہ انہوں نے کیس میں کسی بھی مدعی کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے حاصل کی گئی 2003 کے اواخر کی اس تصویر میں بغداد، عراق کی ابو غریب جیل میں ایک نامعلوم قیدی کو ایک باکس پر کھڑا دکھایا گیا ہے جس کے سر پر ایک بیگ اور اس کے ساتھ تاریں جڑی ہوئی ہیں۔ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے حاصل کی گئی 2003 کے اواخر کی اس تصویر میں بغداد، عراق کی ابو غریب جیل میں ایک نامعلوم قیدی کو ایک باکس پر کھڑا دکھایا گیا ہے جس کے سر پر ایک بیگ اور اس کے ساتھ تاریں جڑی ہوئی ہیں۔دوسری طرف مدعی اس کنڑیکٹر کو ان حالات کے پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں تشدد برداشت کرنا پڑا۔ وہ اس سلسلے میں حکومتی تحقیقات میں ثبوت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سی اے سی آئی کے کنٹریکٹرز نے فوجی پولیس کو حراست میں لیے گئے افراد سے پوچھ گچھ کے لیے انہیں کمزور کرنے کی ہدایت کی۔
انتونیو تگوبا کی انکوائری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سی اے سی ائی کنٹریکٹر کمپنی کے کم از کم ایک تفتیش کار کو جوابدہ ہونا چاہیے جس نے ملٹری پولیس کو ایسی شرائط طے کرنے کی ہدایت کی ہو جو جسمانی زیادتی کے مترادف ہوں۔