اصلاح معاشرہ و اجتماعی زندگی کے اُصول

   

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا، جو لگوں کے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے، تاکہ اللہ انھیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے جو انھوں نے کئے، تاکہ وہ ہدایت کی طرف رجوع کریں‘‘۔
اسلام نے دنیا میں زندگی گزارنے کا ایک ایسا اجتماعی نظام پیش کیا ہے، جس میں ہر طبقہ کے لئے بھلائی ہے۔ اقتصادی نظام سے لے کر معاشرتی اور اخلاقی نظام تک اس میں ایک طرف کچھ آزادی دی گئی ہے اور دوسری طرف حدود متعین کئے گئے ہیں، یعنی ایک شخص کو کھانے کی اجازت ہے، لیکن دوسرے سے چھین کر نہیں اور ضرورت سے زیادہ نہیں۔ انسان اپنی جنسی خواہشات پوری کرسکتا ہے، لیکن حدود میں رہ کر۔ اسلام ہم جنسی کی اجازت نہیں دیتا اور کوئی بھی معقول مذہب اور فلسفہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ایک مرد صرف اسی عورت سے یہ تعلق رکھ سکتا ہے، جس سے اس نے نکاح کیا ہو اور اس کی ذمہ داریاں اپنے ذمہ لی ہوں۔ اس کے علاوہ کسی غیر کی طرف غلط نگاہ ڈالنا اسلام میں جرم ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج سماج کی خرابیاں اسی مطلق العنان آزادی کی دین ہیں، جس نے انسانوں کو جانور بنادیا ہے۔ آج یہ برائیاں فیشن بنتی جا رہی ہیں اور آزادی کے نام پر ان پر دبیز پردے ڈال دیئے جاتے ہیں۔
اجتماعی زندگی کے اصول جب بھی بنائے جائیں گے، اس میں ہرایک کا خیال رکھنا ہوگا، ہر طبقہ کو اس کا حق دینا ہوگا، غریبوں کے حقوق، مالداروں کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، غیروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، کچھ وقت ساتھ گزارنے والوں کے حقوق، سب کے اپنے اپنے خانے ہیں اور ہر ایک کو اس کی جگہ رکھنا اور توازن کو بگڑنے نہ دینا اسلام کی تعلیم ہے اور اس کی سب سے بڑی ذمہ داری مسلمانوں پر ہے۔ مسلمانوں کے پاس اسلامی نظام ہے، مسلمانوں کی پوری تاریخ ہے کہ ہر دور میں اصلاح کرنے والے اور برائیوں کی مذمت کرنے والے پیدا ہوتے رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کتاب الہی اور شریعت مصطفوی ہے۔ آج دنیا کو دوبارہ پلٹنے کی ضرورت ہے، جو تجربہ ہو چکا ہے اگر اسے دہرایا جائے تو شاید حالات پھر بدل جائیں، لیکن اس کے لئے آسمانی تعلیمات کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید جس کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے، اس کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
نماز پر دُنیاوی غلبہ کا اثر
نماز اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، اس کے باوجود ہمارے درمیان بہت سے لوگ بے نمازی مل جاتے ہیں۔ اخلاص سے پڑھی گئی نماز کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور قیامت کے دن اس کا بہت ہی عمدہ اجر عطا کیا جائے گا۔ دل پر دنیا کا غلبہ ہونے کی وجہ سے ہم کیسی نماز ادا کرتے ہیں، یہ بات ہمیں معلوم ہے، جب کہ حدیث شریف میں ہے کہ ’’قیامت سے پہلے نمازوں سے خشوع و خضوع اٹھا لیا جائے گا‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جو نماز جان بوجھ کر چھوڑدے، وہ ایسا ہے جیسا کہ اس کی بیوی، بچے اور اس کا گھر سب چھوٹ گیا ہو اور وہ تنہا رہ گیا ہو‘‘۔