امام الأئمہ حضرت نعمان بن ثابت رضی اﷲ عنہ (۸۰ تا ۱۵۰ ہجری )

   

حافظ سید شاہ مدثر حسینی

نام: نعمان۔ کنیت: ابوحنیفہ۔ والد کا نام: ثابت۔لقب: امام اعظم، امام الأئمہ، سراج الامہ، رئیس الفقہاء والمجتہدین، سیدالاولیاء والمحدثین۔ آپ کے دادا اہلِ کابل سے تھے۔ شرح تحفہ نصائح کے بیان کے مطابق آپ کا سلسلۂ نسب حضرت ابراہیم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تک پہنچتا ہے اور یہاں آکر حضور سیدعالم ﷺ سے آپ کا نسب مل جاتا ہے۔ خطیب بغدادی نے سیدنا امام اعظم کے پوتے حضرت اسمٰعیل بن حماد سے نقل کیا ہے کہ میں اسمٰعیل بن حماد بن نعمان ہوں۔ اللہ کی قسم! ہم پر کبھی غلامی نہیں آئی۔ میرے دادا حضرت ابوحنیفہ ؓکی ولادت سن ۸۰ھ میں ہوئی ان کے والد حضرت ثابت چھوٹی عمر میں حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت میں حاضر کئے گئے، آپ نے ان کے اور ان کی اولاد کیلئے برکت کی دعاء کی۔ اور ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ حضرت علی مرتضیؓ کی دعاء ہمارے حق میں قبول کرلی گئی ہے۔ (کتاب الآثار بروایت امام ابویوسف)۔
آپ نے ابتدائی ضروری تعلیم کے بعد تجارت کا میدان اختیار کرلیا تھا۔ آپ ریشم کے کپڑے کی تجارت کرتے تھے، حفص بن عبدالرحمن بھی آپ کے شریک تجارت تھے۔ آپ کی تجارت عامیانہ اصول سے بالاتر تھی۔ آپ ایک مثالی تجارت اختیار فرماتے۔ امام اعظم قدس سرہ کو متعدد صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے شرفِ ملاقات بھی حاصل تھا، آپ کے تمام انصاف پسند تذکرہ نگار اور مناقب نویس اس بات پر متفق ہیں اور وہ یہ خصوصیت ہے جو ائمۂ اربعہ میں کسی کو حاصل نہیں، بلکہ بعض نے تو صحابۂ کرام سے روایت کا بھی ذکر کیا ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابۂ کرام کی ایک جماعت کو پایا۔ آپ کی ولادت ۸۰ھ میں ہوئی، اس وقت کوفہ میں صحابۂ کرام کی ایک جماعت تھی۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوضی کا وصال سن۸۸ھ کے بعد ہواہے۔امام ابویوسف سے روایت ہے کہ میں نے خود امام اعظمؓ کو فرماتے ہوے سناکہ میں سن ۹۳ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کو گیا، اس وقت میری عمر سولہ سال کی تھی۔ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ ان پر لوگوں کا ہجوم تھا، میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں اور ان کا نام عبداللہ بن حارث ہے، پھر میں نے دریافت کیا کہ ان کے پاس کیا ہے؟ میرے والد نے کہا: ان کے پاس وہ حدیثیں ہیں جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہیں۔میں نے کہا: میں ان کے قریب پہنچ گیا اور میں نے ان سے سناکہ آپ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے دین کی سمجھ حاصل کرلی اس کی فکروں کا علاج اللہ تعالیٰ کرتا ہے اور اس کو اس طرح پر روزی دیتا ہے کہ کسی کو گمان بھی نہیں ہوتا۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ جوشخص علم فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ امام ابوحنیفہؓ اور اُن کے اصحاب کو لازم پکڑے، کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے دستِ نگر (محتاج) ہیں۔ (مناقب ابی حنیفہ ص۹۹)
امام صاحبؓ کی وفات سن۱۵۰ھ میں ہوئی۔ آپ کے وصال کی خبر بجلی کی طرح پورے بغداد میں پھیل گئی۔ جو سنتا بھاگاہوا چلاآتا۔ قاضیٔ بغداد عمارہ بن حسنؒ نے غسل دیا۔ غسل سے فارغ ہوتے ہوئے جمِ غفیر اکٹھا ہوگیا۔ پہلی بار امام ا عظم ؓ کی نمازِجنازہ میں تقریبا پچاس ہزار کا مجمع شریک تھا۔ اس پربھی آنے والوں کا تانتا بندھاہواتھا۔ تقریباً چھ بار نمازِجنازہ ہوئی۔ اخیر میں حضرت حمادؒ نے نمازجنازہ پڑھائی۔ عصر کے قریب تدفین کا وقت آیا۔ ایسے قبولِ عام شخصیت کی مثال پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔ (مناقب امام اعظمؓ)