ایک اور بی جے پی لیڈر کٹہرے میں

   

جب سے مرکز میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے قائدین پر مسلسل لڑکیوں اور خواتین کی عصمت ریزی کرنے اور انہیں دھمکانے کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ یا تو خواتین کی عصمتوں سے کھیلا جا رہا ہے یا پھر سرکاری عہدیداروں کو مار پیٹ کرکے دھونس جمانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بیٹی بچاو اور بیٹی پڑھا و کا نعرہ دینے والی بی جے پی حکومت خود اپنے ہی قائدین سے بیٹیوں کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے ۔ہندوستان کی بیٹیاں مسلسل شکایات کرتی جا رہی ہیں کہ بی جے پی کے قائدین کی جانب سے ان کی عصمت ریزی ہو رہی ہے ۔ انہیں دھمکایا جا رہا ہے اور اگر وہ دھمکیوں سے مرعوب ہوئے بغیر حقائق کو منظر عام پر لا رہی ہیں تو انہیں ہلاک کرنے کی سازشیں بھی ہو رہی ہیں۔ اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت میں تو ایسے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ درج کیا جا رہا ہے ۔ پہلے ہی ریاست میں اناو عصمت ریزی واقعہ نے سارے ملک کی توجہ حاصل کرلی تھی ۔ وہاں متاثرہ لڑکی کے والد کو پولیس تحویل میں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا اور بعد میں خود متاثرہ لڑکی کو سڑک حادثہ کے نام پر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی ۔ اب بی جے پی کے ایک اور قد آور لیڈر و سابق مرکزی منسٹر آف اسٹیٹ داخلہ سوامی چنمیانند پر سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ شاہجہاں پور کے ایس ایس لا کالج کی ایک طالبہ نے ویڈیو جاری کرتے ہوئے سوامی چنمیانند پر کالج کی کئی لڑکیوں سے کھلواڑ کرنے اور ان کی زندگیاں خراب کرنے کا الزام عائد کیا تھا ۔ اس الزام کے بعد یہ لڑکی ہی غائب ہوگئی ہے

اور اب چنمیانند کے خلاف پولیس نے مقدمہ بھی درج کرلیا ہے ۔ یہ کوئی عام نوعیت کا واقعہ نہیں کہا جاسکتا ۔ حالانکہ بی جے پی لیڈر اس الزام کی تردید کر رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ درج ہوچکا ہے اور شکایت کرنے والی لڑکی دوسرے ہی دن سے لاپتہ ہوگئی ہے ۔ لڑکی کا کیا حشر ہوا ہے ابھی اس کا کوئی پتہ نہیں چل پایا ہے اور پولیس تحقیقات میں مصروف ہے ۔ لڑکی کا الزام تھا کہ سوامی چنمیانند ایس ایس لا کالج شاہجہاں پور کے ڈائرکٹر ہیں اور وہ مرکزی وزارت میں بھی کام کرچکے ہیں۔ وہ کالج کی طالبات کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا جاتا ہے اور کوئی لڑکی اگر اس پر احتجاج کرتی ہے یا پردہ فاش کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے اور اسکے گھروالوں کو ختم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اس لڑکی نے ویڈیو میں ہی الزام عائد کیا تھا کہ اسے اور اس کے افراد خاندان کو بھی ہلاک کرنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ جس طرح اناو عصمت ریزی معاملہ میں متاثرہ لڑکی کے والد کو ہلاک کردیا گیا اور خود لڑکی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے چنمیانند کے خلاف شکایات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جس پارٹی کی مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں بیٹی بچاو اور بیٹی بچاو کا نعرہ دیتی ہیں اسی پارٹی کے قائدین ملک کی بیٹیوں کی عصمتیں تار تار کر رہے ہیں اور شکایت کرنے پر انہیں ہلاک کرنے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ اپنی لفاظی سے عوام کا دل موہ لینے والے وزیر اعظم یا پھر ملک کے وزیر داخلہ اپنی پارٹی کے قائدین کے خلاف کوئی بیان دینا ضروری نہیں سمجھتے ۔ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں رہتا کہ یہ معاملہ محض ان کی پارٹی کے قائدین کا نہیں بلکہ اس ملک کی بیٹیوں اور خواتین کی عزت کا ہے ۔ بی جے پی اقتدار پر فائز ہونے سے قبل دوسروں سے مختلف ہونے کا دعوی کرتی رہی ہے لیکن یہ انفرادیت اب الگ معنوں میں سامنے آ رہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ برسر اقتدار قائدین کی جانب سے اپنے عہدہ اور اختیارات کا بیجا استعمال کیا جاتا ہے لیکن جس طرح سے خواتین کا جنسی استحصال کرنے کے الزامات بی جے پی قائدین پر عائد ہو رہے ہیں اس کی مثالیں ماضی میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ہیں۔ حالیہ عرصہ میں اس طرح کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ مرکزی اور ریاستی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس الزام کو محض سیاسی عینک سے نہ دیکھے بلکہ ملک کی بیٹیوں اور خواتین کی عزت کو بچانے کیلئے حرکت میں آئے اور اگر واقعی کوئی خاطی ہے تو اس کے عہدہ اور سیاسی وابستگی کا خیال کئے بغیر اسے کیفر کردار تک پہونچائے ۔