ایک اور ٹرین حادثہ

   

تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو
رُک گئے راہ میں حادثہ دیکھ کر
ایک اور ٹرین حادثہ
بہار کے حاجی پور میں سیمانچل ایکسپریس حادثہ کا شکار ہوگئی ۔ اس ٹرین کے گیارہ ڈبے پٹری سے اتر گئے اور اس میںکچھ لوگوں کی جانیں چلی گئیں اور درجنوںافراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں اکثر و بیشتر ریل حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ چھوٹے موٹے حادثات کا تذکرہ اگر نہ بھی کیا جائے تو بڑے حادثات بھی کافی تعداد میں ہوتے ہیں اور ان حادثات میںسینکڑوں لوگ اب تک موت کے نیند سوچکے ہیں اور کئی سو لوگ ایسے ہیں جو مستقل معذور ہوگئے ہیں۔ معمولی زخمی افراد کی تعداد کا توا ندازہ ہی نہیںلگایا جاسکتا ۔ جس طرح ہندوستان میںٹرین حادثات اکثر و بیشتر پیش آتے رہتے ہیں اسی طرح ایک فارمولا پہلے ہی سے طئے شدہ ہے ۔ حادثہ پیش آنے پر اعلی عہدیداروں کا دورہ کروایا جاتا ہے ۔ مہلوکین کے ورثا ء کیلئے ایکس گریشیا یا رقمی امداد کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ زخمیوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔ انہیں بھی کچھ رقمی امداد فراہم کی جاتی ہے ۔ معمولی زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد گھر بھیج دیا جاتا ہے اور بس ۔ اکثر اوقات کئی کئی ماہ کے بعد ٹرین حادثات کی رپورٹس سامنے آتی ہیں۔ ان میں کبھی کوئی ذمہ دار قرارد یا جاتا ہے تو کبھی کوئی اور وجہ بیان کردی جاتی ہے ۔ کبھی کبھار جو ذمہ دار قرار دئے جاتے ہیں انہیں یا تو معطل کیا جاتا ہے یا پھر کچھ دوسری سزائیں دی جاتی ہیں اور بس۔ حادثات کی روک تھام کیلئے ہمارے پاس کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے ۔ بار ہا پیش آنے والے حادثات کے باوجود ہم نے اس تعلق سے کوئی منصوبہ بندی نہیںکی ہے اور ہم مستقلا حادثات کے عادی ہوتے ہوئے انسانی جانوں کے اتلاف پر محض تماشائی بنے رہتے ہیں اور ایک کی ذمہ داری دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔ چند دن گذرتے ہیں اور پھر سب کچھ فراموش کردیا جاتا ہے ۔ یہ انسانی جانوں کے تئیں ہماری انتہائی بے حسی ہے ۔ ہم مسلسل حادثات کو دیکھتے ہیںاور ان پر کچھ دیر کیلئے کف افسوس ملتے ہیں اور پھر اسی طرح کی لاپرواہی کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ ہم حادثات کے تدارک کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں۔
حکومت کی جانب سے ‘ وزیر ریلوے کی جانب سے اور وزارت ریلوے کے حکام کی جانب سے ہر بار یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس بار ریل حادثات کی روک تھام اور مسافرین کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے نئے منصوبے تیار کئے جارہے ہیں۔ یہ منصوبے کیا ہوتے ہیں انہیں کبھی عوام کے سامنے پیش نہیں کیاجاتا ۔ ان کے نقائص کیا ہیںان پر کوئی رائے حاصل نہیں کی جاتی ۔ ان کے تعلق سے تفصیل کو عام نہیں کیا جاتا ۔ بارہا کے دعووں کے باوجود کے مسافرین کی حفاظت اور سلامتی کیلئے کئی اقدامات کئے جا رہے ہیں حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ تقابلی جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں جتنے ریل حادثات پیش آتے ہیں اتنے حادثات کسی اور ملک میں سنائی نہیں دیتے ۔ گذشتہ دنوں بجٹ کے دوران جب ریلوے کے تعلق سے رقم مخصوص کرنے کی بات کہی گئی تو اس میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ ہندوستان میںتمام بے پہرہ ریلوے کراسنگ ختم کردی گئی ہیں۔ ہر کراسنگ پر پہرہ وغیرہ کا انتظام کردیا گیا ہے ۔ تاہم پٹریوں سے ٹرین کی بوگیاں اترنے اور کبھی کبھار دو ٹرینوں کے آپس میںٹکراو کو روکنے کیلئے جو انتظامات ہونے چاہئیں وہ اتنے موثر نہیں ہیںاور کبھی کسی کی غفلت یا لا پرواہی تو پھر کبھی کسی فنی یا تکنیکی خرابی کی وجہ سے حادثات پیش آتے رہتے ہیں ۔ انسانی جانوں کا اتلاف ہوتا رہتا ہے اور لوگ زخمی ہوتے رہتے ہیں۔
ہر سال ریلوے کے بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اسٹینشوں پر وائی فائی تو فراہم کیا جا رہا ہے اور مسافرین کو ٹرین کی روانگی سے 20 منٹ قبل اسٹیشن پہونچنے کیلئے بھی کہا جانے والا ہے لیکن ریل حادثات کی روک تھام کیلئے کوئی موثر اور جامع پالیسی ہمارے پاس نہیں ہے ۔ اس کیلئے صرف دکھاوے کے چند اقدامات سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر جامع منصوبہ بندی کی جائے ۔ ماہرین کی رائے حاصل کی جائے ۔