بدترین حکومت کیخلاف حیدرآباد کا بہترین ’ملین مارچ‘

   

٭ نریندر مودی چور ۔ اسد الدین اویسی کا دوہرا معیار : وی ہنمنت راؤ
٭ ملک کے بنیادی جذبہ کیخلاف سماج کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا: جسٹس راجیندر
٭ ملین مارچ اختتام نہیں ، جدوجہد کا آغاز : مشتاق ملک
٭ سی اے اے ‘ این آر سی ‘ این پی آر گجرات بمقابلہ انڈیا ٹی 20میچ : عامر علی خان

عرفان جابری
مودی ۔ امیت شاہ کی متعصب حکومت کے نافذ العمل CAA، معلنہ NPR اور مجوزہ NRC کے خلاف حیدرآباد نے بقیہ ملک کے مقابل احتجاج کچھ تاخیر سے شروع کیا، لیکن جب 4 جنوری کو ’’دھرنا چوک، اندرا پاک‘‘ پر ’ملین مارچ‘ منعقد کیا تو تاریخ رقم ہوگئی۔ مجھے فخر ہے کہ میرے بشمول زائد از 20 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے اجتماعی کاز میں شریک ہوا۔ یہ مجمع پانچ تا دس لاکھ (ایک ملین) کے درمیان ضرور رہا ہوگا ۔ اس سے قبل بہت بڑا اجتماع تلنگانہ تحریک کے دوران ملین مارچ کے اہتمام میں درج ہوا تھا۔ مسلمانوں پر مودی حکومت کے راست وار کے خلاف جو ملین مارچ ہوا، اس کی سب سے بڑی خوبی اور قابل رشک پہلو یہ ہے کہ اس میں حیدرآبادی مسلمانوں اور کافی تعداد میں غیرمسلم افراد اور لیڈروں نے رضاکارانہ طور پر حصہ لیا۔ شہر میں کئی دہوں سے موجود سیاسی جماعت نے خود کو ملین مارچ سے دور رکھا، حالانکہ اس میں تمام مکاتب فکر کے سیاسی قائدین، سماجی قائدین، مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔ میرے خیال میں مجلس نے ملین مارچ سے خود کو دور رکھ کر غلطی کی ہے۔ صدر مجلس کی کیا مجبوری ہے، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
سی اے اے، این پی آر، این آر سی کتنے گھناؤنے اور سازشی قانون اور منصوبے ہیں، اسے یہاں واضح کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ اس کے بعد قارئین خود فیصلہ کریں کہ یہ وقت اتحاد کا ہے یا انتشار کا؟ ہندوستان کے کئی مقامات پر ہندو ابنائے وطن کہہ رہے ہیں کہ تقریباً تین دہوں سے ہندو، مسلم کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی تھی، ہمیں انتشار میں مبتلا کردیا گیا تھا، لیکن مودی۔ شاہ نے سی اے اے، این پی آر، این آر سی کے ذریعے ہندو۔ مسلم اتحاد کا احیاء کردیا ہے۔ شاید اسی کو کہتے ہیں ’’شر میں خیر‘‘۔ یہ موقع اور یہ موضوع اپنی علحدہ شناخت پر اصرار کا ہرگز نہیں۔ اس جدوجہد میں بلالحاظ مذہب، ملت، مسلک، فرقہ، ذات و نسل حصہ لینے کی ضرورت ہے، ورنہ ہٹ دھرم مودی۔ شاہ حکومت کو خود مسلمانوں میں عدم اتحاد کا فائدہ اٹھانے کا ایک اور موقع ہاتھ لگ جائے گا۔
ہم احتجاج کیوں کررہے ہیں؟

متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، یکم اپریل 2020ء کو شروع کرنے کے اعلان والا نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) تینوں ایک دوسرے سے بظاہر علحدہ لیکن حقیقت میں مربوط ہیں، البتہ یہ تینوں 10 سالہ مردم شماری (Census) سے مختلف ضرور ہیں۔ ان تینوں منصوبوں پر عمل آوری کا نتیجہ مسلم کشی، اُن کی جیل نما کیمپوں میں منتقلی اور اُن کی دوسرے درجہ کا شہری بن کر ووٹ دینے کے حق سے محرومی ہوگی۔میں نے مسلم کشی کے سنگین الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جی ہاں! ہندوتوا قوتوں کا طویل میعادی مقصد یہی ہے۔ مذکورہ بالا تینوں منصوبوں کا مختصر مدتی مقصد 2014ء سے مودی حکومت کی بدترین حکمرانی کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔ اپوزیشن اور عام ہندوستانی تو کیا خود برسراقتدار گوشوں میں کئی لوگوں کو اعتراف ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت روزگار، معیشت، کالادھن، نوٹ بندی، جی ایس ٹی جیسے کئی شعبوں میں ناکام ہے۔ آئیے سی اے اے، این پی آر اور این آر سی پر نظر ڈالتے ہیں:
شہریت ترمیمی قانون
CAA

شہریت قانون 1955ء میں وقتاً فوقتاً کئی ترامیم ہوئی ہیں مگر کبھی ایسی ترمیم نہیں کی گئی جیسی مودی۔ شاہ کی متعصب ذہنیت نے کی ہے۔ این پی آر اور این آر سی سے علحدہ کرکے سی اے اے کو دیکھا جائے تو بظاہر ہندوستانی مسلمانوں کو فکرمندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن مودی حکومت کی ترمیم دیکھئے کہ اس نے تین مسلم ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ستم زدہ یا مظلوم اقلیتوں ہندو، سکھ، عیسائی، جین، پارسی اور بودھ کو ہندوستانی شہریت عطا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ گویا حکومت ہند دعویٰ کررہی ہے کہ تینوں پڑوسی مسلم ملکوں میں اقلیتوں پر ظلم ہورہا ہے؟ وزیراعظم ہند کتنے ’’بھولے‘‘ ہیں کہ وہ لنچنگ کو ستم نہیں سمجھتے۔ جب سے بی جے پی کو مرکز میں اقتدار حاصل ہوا ہے، مسلمانوں کی لنچنگ ہوئی، دلتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ ساڑھے پانچ سال سے مسلمانوں کے خلاف بی جے پی ، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سنگھ) اور اس کی محاذی تنظیموں نے کتنا زہر اگلا ہے، وہ بھی مودی۔ شاہ کو یاد نہیں۔ اقوام متحدہ اور امریکہ ہر سال اپنی مختلف کمیٹیوں اور کمیشنوں کی رپورٹس جاری کرتے ہیں، جن میں ہر بار کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کو انسانی حقوق کے معاملے میں اپنا ٹریک ریکارڈ بہتر بنانا ہوگا۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی کئی دہوں سے مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے۔ سی اے اے کو سادہ طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ خواہ مخواہ پڑوسی ممالک پر الزام آرائی کے ذریعے تعلقات خراب کئے جارہے ہیں۔ آپ ہندوستان میں مزید لوگوں کو بسانا چاہتے ہیں جبکہ موجودہ آبادی کی روزگار، تعلیم، سلامتی، جرائم سے حفاظت کے فرائض کی تکمیل میں آپ بُری طرح ناکام ہو۔

قومی آبادی رجسٹر NPR
واجپائی حکومت نے 2003ء میں شہریت قانون 1955ء میں ترمیم کرتے ہوئے ہر دس سال میں این پی آر منعقد کرانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ قومی آبادی رجسٹر میں درج تمام افراد کو تصویری شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔ تب ’آدھار‘ کا وجود نہیں تھا۔ اگلے ہی سال واجپائی حکومت کو انتخابی شکست ہوگئی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے تحت یو پی اے حکومت قائم ہوئی۔ سرکاری بہبودی اسکیمات اور مختلف سبسیڈیز کی عوام کو بینک اکاؤنٹس میںراست منتقلی اور ہمہ مقصدی ’آدھار‘ کارڈ؍ نمبر کا جنوری 2009ء میں آغاز ہوا، لیکن دو ماہ قبل ممبئی میں 26/11 کے حملے نے ڈاکٹر سنگھ حکومت کو اس فیصلے پر مجبور کیا کہ تمام ساحلی ریاستوں میں ’این پی آر‘ کا انعقاد ہو۔ تاہم اسے 2011ء کی مردم شماری (سنسیس) کے پہلے مرحلے 2010ء کے ساتھ منعقد کیا گیا اور جس کسی کے پاس آدھار کارڈ موجود تھا، اس کا بائیومیٹرک ڈیٹا حاصل نہیں کیا گیا بلکہ اس فرد کیلئے آدھار ڈیٹا بیس سے استفادہ کیا گیا۔ نیز این پی آر کے تحت قومی سطح پر کوئی شناختی کارڈ جاری نہیں کیا گیا، کیونکہ یہ مقصد آدھار کارڈ سے حاصل ہوچکا تھا۔
قومی رجسٹر شہریان NRC
یو پی اے حکومت نے ایسا منصوبہ کبھی نہیں بنایا کہ ’این آر سی‘ لاگو کرتے ہوئے شہریت کے دستاویزی ثبوت مانگے جائیں اور شہریت ثابت کرنے میں ناکامی پر اُن کو جیل نما کیمپوں میں ڈال دیا جائے یا ملک بدر کردیں۔ پہلے سے فارینرس ایکٹ 1946ء موجود ہے جو غیرمجاز طور پر مقیم افراد سے نمٹتا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ پارلیمنٹ میں گزشتہ سیشن کے دوران شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) پر مباحث کا جواب دیتے ہوئے اعلان کرچکے ہیں قومی سطح پر این آر سی لاگو کیا جائے گا۔ اور سرکاری ریکارڈ میں بھی واضح ہے کہ این آر سی کیلئے پہلا قدم این پی آر ہے۔ جب شہریت کے تعین کیلئے شہریت قانون 1955ء موجود ہے تو این آر سی لاگو کرنے کا کیا جواز ہے؟ جواز یہی ہے کہ آر ایس ایس کے دیرینہ خواب ’’ہندو راشٹرا‘‘ کی تکمیل کرنا ہے۔ وہ کس طرح ہوگی؟ جب کوئی غیرمسلم اپنی ہندوستانی شہریت کا دستاویزی ثبوت پیش نہیں کرپائے گا تو اسے سی اے اے کے تحت شہریت عطا کردی جائے گی جبکہ سی اے اے میں مسلمانوں کا تذکرہ ہی نہیں ہے۔ یعنی مسلمانوں کو مراکز حراست میں رہنا ہوگا، یا ملک سے فرار ہونا پڑے گا، یا یہیں پر جدوجہد کرتے ہوئے مرنا ہوگا!
مردم شماری Census
ہر ملک میں مردم شماری لازمی سرکاری سرگرمی ہے۔ مردم شماری میں ملک میں رہنے والوں کی گنتی کی جاتی ہے۔ سیاحوں اور سفارت کاری عملہ اور ان کے خاندانوں کو چھوڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ ملک میں کتنے نفوس یا افراد بستے ہیں؟ ہر دس سال بعد سنسیس کے انعقاد کی تاریخ پرانی ہے۔ سب سے پہلے 1800 ء میں برطانیہ میں مردم شماری کی گئی۔ انگریزوں کی حکمرانی والے ہندوستان میں 1881ء میں مردم شماری ہوئی۔ آزاد ہندوستان میں پہلی بار 1951ء سنسیس منعقد کیا گیا۔ تب سے 1961، 1971، 1981، 1991، 2001، 2011ء میں مردم شماری کی جاتی رہی اور 2021ء میں اگلا سنسیس مقرر ہے۔ اس کے تحت تصویری شناخت حاصل نہیں کی جاتی بلکہ ہر فرد، اس کے اہل و عیال، اس کے ازدواجی موقف، اس کی پڑھائی وغیرہ کے بارے میں مختلف معلومات درج کی جاتی ہیں۔ سنسیس کے ذریعہ یہ تعین نہیں کیا جاتا کہ فلاں فرد ہندوستانی شہری ہے یا نہیں۔ اس معاملہ کیلئے علحدہ قوانین موجود ہیں۔
ہم کاغذات نہیں دکھائیں گے
دوبارہ حیدرآباد کے تاریخی ’ملین مارچ‘ کی بات کرتے ہیں۔ سی اے اے، این پی آر این آر سی کے خلاف 40 مختلف مذہبی، سماجی و ثقافتی تنظیموں پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے اے سی) کمیٹی نے ’ملین مارچ‘ کا انعقاد عمل میں لایا۔ لاکھوں عوام کی موجودگی میں ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا کہ کوئی بھی شہری این پی آر اور این آر سی کیلئے اپنے کاغذات پیش نہیں کرے گا۔ عوام نے قرارداد کی پُرزور تائید کی۔ اس موقع پر شریک متعدد شخصیتوں نے لاکھوں احتجاجیوں سے خطاب کیا۔ جسٹس سی راجیندر کمار نے کہا کہ ملک کے مزاج اور بنیادی جذبہ کے خلاف سماج کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ کنوینر جے اے سی محمد مشتاق ملک نے کہا کہ ملین مارچ اختتام نہیں بلکہ جدوجہد کا آغاز ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سرزمین پر صدیوں ہم نے حکومت کی ہے، ہم یہیں رہیں گے اور یہیں مریں گے۔ اس کے خلاف کوشش کرنے والی ہر طاقت سے ہر ضرور لڑیں گے۔ سابق رکن راجیہ سبھا وی ہنمنت راؤ نے کہا کہ نریندر مودی چور ہے اور اسد الدین اویسی نے دوہرا معیار اختیار کررکھا ہے۔ عامر علی خان نے کہا کہ یہ سارا معاملہ گجرات اور ہندوستان کے درمیان T20 میچ کی مانند ہے۔ ملین مارچ میں لاکھوں احتجاجیوں کی موجودگی پر مسرور نیوز ایڈیٹر سیاست نے کہا کہ مسلمانوں مقننہ کے ایوان میں معقول تعداد میں بھلے ہی نہیں پہنچ پارہے ہیں لیکن اگر ہم اسی طرح کے اتحاد کا مظاہرہ کرتے رہیں تو کسی بھی حکمرانی کو مفلوج کرسکتے ہیں۔ ایک اور کانگریسی محمد علی شبیر نے بھی اسد اویسی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا کہ اسد اویسی گھر سے نکلو اور سڑک پر احتجاج کرو۔ پروفیسر وشویشور راؤ نے دعویٰ کیا کہ مودی و امیت شاہ کو بھاگنا ہوگا۔ فادر انٹونی نے کہا کہ این آر سی محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں، اس لئے تمام طبقات کو اس غیردستوری اقدام کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگا۔ امیر جماعت اسلامی مولانا حامد محمد خان نے کہ دستور کے خلاف فیصلے ناقابل قبول ہیں۔ ڈاکٹر کمار نے کہا کہ یہی موقع ہے کہ مسلمان و پسماندہ طبقات متحد ہوجائیں۔ متعدد دیگر شخصیتوں، قائدین، جہدکاروں نے بھی مخاطب کیا۔
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com